اقامت میں حی علی الصلٰوۃ پر کھڑے ہونا
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء
کرام اس مسئلہ میں کہ کچھ سُنّی حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں کہ جب اقامت (تکبیر) شروع
ہو تو کوئی شخص کھڑا نہ رہے، بیٹھ جانا ضروری ہے بلکہ جو اُس وقت پہنچے وہ بھی آ کر
بیٹھ جائے جب تک تکبیر کہنے والا حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر نہ پہنچ جائے شریعت میں سنت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کیا
ہے وضاحت فرمائیں تاکہ سُنّی حضرات گمراہ نہ ہوں۔ نیز جن فقہ کی کتب میں حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑے ہونے کا ذکر ہے اُس کا صحیح مطلب کیا ہے؟
الجواب بعون الوھّاب
﴿۱﴾ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے
ہیں کہ جب نماز کی اقامت ہونے لگتی تو ہم کھڑے ہو کر صفیں درست کر لیا کرتے اس سے پہلے
کہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لاتے۔ حدیث شریف یہ ہے: عن ابی ھریرۃ یقول اقیمت الصلٰوۃ فقمنا فعدّلنا الصفوف قبل ان
یخرج الینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم (صحیح مسلم ص۲۲۰ ج۱)۔
اس حدیث کے تحت شرح مسلم میں علامہ نووی رحمۃ اﷲ علیہ نے دو
اہم باتیں نقل فرمائیں ہیں: (۱)حضرات صحابہ کرام رضی
اﷲ عنہم کے عام معمول کے مطابق دائمی سنت طریقہ (یعنی اقامت کے شروع سے صفوں کے درست
کرنے) کی طرف اشارہ ہے۔ (۲)محدث قاضی عیاض مالکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام
مالک رحمۃ اﷲ علیہ اور جمہور علماء اہلسنت کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ جب مؤذن اقامت شروع
کرے تو نمازی حضرات فوراً کھڑے ہو کر صف بنائیں۔ و قال العلّامہ نووی: اشارۃ الی ان ھٰذہ سُنّۃ معھودۃ عندھم و نقل القاضی عیاض
عن مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ و عامۃ العلماء انہ یستحب ان یقوموا اذا اخذ المؤذن فی الاقامۃ
(ص۲۲۱ ج۱) بعینہٖ اسی طرح عمدۃ القاری شرح بخاری میں ہے کہ جب مؤذن تکبیر
(اقامت) شروع کرے تو تمام نمازی کھڑے ہو جائیں اس پر عظیم محدث شیخ الاسلام علامہ ظفر
احمد عثمانی چشتی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر امت مسلمہ شروع اقامت سے ہی کھڑے
ہو جانے پر بغیر کسی اعتراض کے آج تک عمل کرتی چلی آ رہی ہے۔ قال العلّامہ العینی فی العمدۃ …… فذھب مالک و جمھور العلماء
…… القیام اذا اخذ المؤذن فی الاقامۃ و علیہ عمل العامۃ الیوم من غیر نکیر (اعلاء السنن
ص۳۲۷ ج۴ باب وقت قیام الامام و المامومین للصلٰوۃ۔ طبع کراچی)۔
﴿۲﴾محدث عبدالرزاق رحمۃ اﷲ علیہ (امام بخاری کے استاذ) نے حضرت
ابن جریج سے،انہوں نے حضرت ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ جب مؤذن اقامت شروع کرتا تو
حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اسی وقت کھڑے ہو جاتے تھے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
امامت کی جگہ اس وقت تک نہ آتے جب تک صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم صفیں درست نہ فرما لیتے۔
حدیث شریف یہ ہے: عبدالرزاق عن ابن جریج قال اخبرنی ابن شھاب ان الناس کانوا ساعۃ
یقول المؤذن اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر یقیم الصلٰوۃ یقوم الناس الی الصلٰوۃ فلا یاتی
النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہٗ حتی یعدّل (مصنف عبدالرزاق ص۵۰۷ ج۱ باب قیام الناس عند الاقامۃ۔ رقم الحدیث ۱۹۴۲)۔
﴿۳﴾سیدالتابعین محدث و فقیہ حضرت سعید
بن مسیب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں جب مؤذن اﷲ اکبر (یعنی اقامت شروع) کرے تو کھڑا ہونا
واجب ہے اور جب حیّ علی الصلٰوۃ پر پہنچے تو صفیں
درست ہو جائیں اور جب لا الٰہ الا اللّٰہ (آخری کلمہ) کہے تو امام صاحب نماز شروع کر دے۔ عبارت یہ ہے:
عن سعید بن المسیب قال اذا قال المؤذن اللّٰہ اکبر وجب القیام
و اذا قال حی علی الصلٰوۃ عُدّلت الصفوف و اذا قال لا الٰہ الا اللّیہ کبّر الامام
(فتح الباری شرح بخاری ص۸۱ ج۲ باب متی یقوم الناس) اس لیے افضل و
اصحّ یہی ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی ترتیب مبارک کے مطابق امام و مقتدی
حضرات اقامت کے شروع ہوتے ہی صفیں درست کر لیں چنانچہ اسی بات کو حکیم الامت مجدّد
الملّت شاہ اشرف علی حنفی چشتی رحمۃ اﷲ علیہ نے عمل کے اعتبار سے بہتر قرار دیا ہے
(بوادر النوادر، ص۳۸۹ طبع ادارۂ اسلامیات لاہور)۔
مذکور تحقیق پر تائید مزید ملاحظہ ہو:
(۱)شیخ الاسلام مفتی شاہ مظہر اﷲ دہلوی (بریلوی) فرماتے ہیں ’’حی علی الفلاح‘‘ کے اوپر کھڑے ہونے کے متعلق کوئی
ایک حدیث بھی میری نظر سے نہیں گزری بلکہ بعض احادیث اس کے مخالف معلوم ہوتی ہیں مثلاً
(حضرات صحابہ کرام فرماتے ہیں) جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
ہماری صفوں کو برابر کرتے جب برابر ہو جاتیں تب تکبیر فرماتے‘‘ (چند سطر بعد فرماتے
ہیں) صفیں سیدھی نہ ہوتی ہوں تو اول ہی سے کھڑا ہونا چاہیے کہ صفوں کے سیدھے نہ ہونے
میں کراہت ہے اور حی علی الفلاح پر نہ کھڑے ہونے میں کراہت نہیں ہے‘‘ (فتاویٰ مظہریہ
ص۹۸ ،ج۱، مرتب ڈاکٹر محمد مسعود احمد بریلوی، طبع۱۹۹۹ء کراچی)۔
(۲)سیال شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی اپنے عربی مکتوب (بنام غلام
فخر الدین سیالوی) میں فرماتے ہیں ’’حمد و صلوٰۃ کے بعد بعض طلباء نے اقامت کے وقت
بیٹھ جانے کی بدعت نکالی ہے خواہ وہ پہلے کھڑے ہی کیوں نہ ہوں …… (آخر میں فرماتے ہیں)
اقامت کے شروع میں بیٹھنے کا حکم شریعت میں نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ بات شریعت میں
کہیں ثابت ہے۔ اصل عبارت یہ ہے: اما بعد، فان بعض الطلبۃ
قد ابتدعوا الجلوس وقت التکبیر (الاقامۃ) و لو کانوا قائمین قبل الاقامۃ …… لا الجلوس
مامور بہ عند شروع التکبیر و ذاک غیر ثابت قط۔ واللّٰہ و رسولہ اعلم۔ حررہ الفقیر قمر
الدین غفراللّٰہ لہ۔ ۱۴ ذیقعدہ ۱۳۷۷ھ (ماہنامہ ضیاء حرم (بھیرہ شریف) شیخ
الاسلام نمبر، ص۱۸۹، طبع مئی ۲۰۰۴ء)۔
لہٰذا بہت افسوس ہے ایسے افراد پر جو سُنّی کہلانے کے باوجود
اقامت شروع ہوتے ہی بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ بقول حضرت خواجہ صاحب بدعتی ہیں
سُنّی نہیں۔ فافھم و لا تکن من القاصرین ۔ رہی یہ بات کہ حضرات فقہاء کرام رحمہم اﷲ سے حی علی الفلاح پر کھڑا ہو جانا منقول ہے تو اس بارہ میں حنفی محقق حضرہ علامہ
شامی رحمۃ اﷲ علیہ کے استاذ مکرم علامہ سیّد احمد طحطاوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
حی علی الفلاح کے وقت کھڑے ہونے کا
مطلب یہ ہے کہ حی علی الفلاح کے بعد بھی نہ اٹھنا
اور بیٹھے رہنا باعث گناہ ہے اس کا یہ مطلب مراد لینا کہ اقامت کے شروع میں اٹھنا جائز
نہیں شرعاً درست نہیں چنانچہ اقامت شروع ہو تو فوراً اٹھ کر صفیں درست کریں اگر کسی
وجہ سے دیر ہو جائے تو حی علی الفلاح تک ضرور کھڑے ہو جائیں۔
و فی الدر المختار۔ و القیام لامام و مؤتم حین قیل حی علی الفلاح
و فی الطحطاوی علی الدر: و الظاھر انہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم حتی لو قام اول
الاقامۃ لا بأس (ص۲۱۵ ج۱ اٰخر باب صفۃ الصلٰوۃ، طبع کوئٹہ)۔
فقط
و اللّٰہ یقول الحق و
ھو یھدی السبیل
کتبہ العبد المنیب محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الرقیب
۹؍ذوالحجہ ۱۴۳۲ھ۔۶؍نومبر۲۰۱۱ء
تصدیق
استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب دامت
برکاتہم
صدر مفتی جامعہ حقانیہ، ساہیول (ضلع سرگودھا)
……﴿نعم الجواب و ھو
عین الصواب﴾……
و ھذا ما افتی بہ حضرۃ جدی الکریم رحمہ اللّٰہ تعالٰی و حضرت
سیدی و ابی رحمہ اللّٰہ تعالٰی و بہ افتی۔
احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
خادم دارالافتاء بالجامعۃ الحقانیہ
ساھیوال سرجودھا
No comments:
Post a Comment