ایک مجلس کی تین طلاق کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء
کرام و مفتیان عظام اس بارہ میں کہ مسمی واجد حسین عباسی صاحب نے اپنی زوجہ مسماۃ نوشین
خالد کو سات طلاقیں دی ہیں انھوں نے دارالقضاء شرعی جماعۃ الدعوۃ اسلام آباد سے یہ
فتویٰ حاصل کر کے رجوع کر لیا ہے۔
فتویٰ کی اصل عبارت یہ ہے:
شریعت اسلامیہ میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق
شمار کیا جاتا ہے۔ صحیح مسلم کتاب باب الطلاق، صحابی رسول رکانہ بن عبدیزید نے اپنی
بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایک طلاق ہوئی ہے
چاہو تو رجوع کر لو پھر صحابی نے رجوع کر لیا۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری،ج۹،ص۴۵۰) …………………………………………………………………………مفتی ابو الحسن جواد عبدالباسط، دارالقضاء و الافتاء اسلام آباد
اس فتویٰ کی حقیقت کیا ہے؟ حدیث رکانہ کی ضرور وضاحت کریں۔ اگر
حضرت عبداﷲ بن عباس کے ذاتی فتاویٰ ہوں کہ تین طلاق ایک مجلس میں اکٹھی دیں تو تین
ہی واقع ہوتی ہیں وہ ضرور لکھیں کہ عباسی خاندان سے سائل کا تعلق ہے۔
الجواب بعون الوھّاب
﴿۱﴾شریعت اسلامیہ میں طلاق کی ایک حد متعین ہے وہ زیادہ سے زیادہ
تین طلاق ہیں اگر کوئی سو (۱۰۰)طلاق بھی دے گا توواقع تین ہی ہوں گی باقی شرعی حد سے تجاوز
ہو گا جو کہ مستقل گناہ اور نافرمانی ہے۔ البتہ دو طلاق الگ الگ دے یا اکٹھی دے تو
عدت میں شوہر کو رجوع کا حق شرعاً حاصل ہے لیکن تین الگ الگ دے یا اکٹھی دے قرآن و
سنت اور اجماع سلف صالحین کی روشنی میں علامہ ابوبکر جصّاص رازی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے
ہیں تین طلاق اکٹھی دینا اگرچہ گناہ کبیرہ ہے مگر شرعاً تین ہی واقع ہوں گی دیکھیے
احکام القرآن: فالکتاب و السنّۃ و اجماع السلف الصالحین توجب
ایقاع الثلاث معًا و ان کان معصیۃً (ج۱، ص۳۸۸)۔
’’ایک مجلس کی تین طلاق‘‘
پر اختصار کے ساتھ صرف ایک آیت ملاحظہ ہو:
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ …… (سورۃ بقرہ، آیت نمبر۲۲۹)
طلاق (رجعی) دوبار ہے پھر دستور کے مطابق روک لے یا بہتر طریقہ
سے چھوڑ دے۔
یہ آیت کریمہ عام ہے کہ ایک مجلس میں دو طلاق اکٹھی دی جائیں
یا الگ الگ مجلس میں طلاق دے شرعاً واقع ہو جائیں گی لہٰذا جب دو اکٹھی واقع ہو جاتی
ہیں تو تین طلاق بھی ایک مجلس میں اکٹھی واقع ہو جاتی ہیں۔
(۱)امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی صحیح بخاری شریف میں اکٹھی تین طلاقوں کے واقع
ہونے پر اسی آیت سے دلیل پکڑی ہے، عبارت یہ ہے: باب من اجاز طلاق الثلاث لقولہ تعالٰی: الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسریح باحسان
(ج۲،ص۷۹۱)۔
(۲)علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اﷲ علیہ نے تین طلاق اکٹھی واقع ہونے پر اسی آیت مذکورہ
سے یوں استدلال کیا ہے کہ جب دو طلاق اکٹھی واقع ہونا درست ہے تو تین طلاق اکٹھی واقع
ہونا بھی درست ہے۔ عبارت یہ ہے: و فی عمدۃ القاری شرح
صحیح البخاری: وجہ الاستدلا ل بہ ان قولہ تعالٰی (الطلاق مرتان) معناہ مرۃ فاذا جاز
الجمع بین ثنتین جاز بین الثلٰث (ج۲۰، ص۲۳۴، طبع مصر)۔
(۳)جماعت اہلحدیث وہابیہ کے بزرگ عالم اور امام ابن حزم بھی ہمارے موقف کی تائید کر
رہے ہیں دیکھیے ان کی معتبر کتاب ’’اَلْمُحَلّٰی لِاِبْنِ
حَزمْ‘‘ کہ یہ آیت (الطلاق مرتان) بیک وقت دی گئی تین طلاقوں اور الگ الگ دی گئی تین طلاقوں دونوں
پر صادق آتی ہے اور اس آیت کو بغیر کسی نص کے طلاق کی بعض صورتوں کے ساتھ خاص کرنا
جائز نہیں ہے۔ عربی عبارت یہ ہے: (الطلاق مرتان) …… فھذا
یقع علی الثلاث مجموعۃ و مفرقۃ و لا یجوز ان یخصّ بھذہ الاٰیۃ بعض ذلك دون بعض بغیر
نص۔ (ج۱۰، ص۱۷۰، ط:مصر) نیز اسی المحلّی میں ہے کہ آیت کریمہ ’’الطلاق مرتان‘‘ میں طلاق کی ترتیب کو نہیں بیان کیا
گیا بلکہ تعدادِ طلاق کو بیان کیا گیا اس لیے اس آیت کو صرف الگ الگ دو طلاق دینے پر
چسپاں کرنا غلطی ہے لہٰذا مرتان سے دو اکٹھی طلاق دینا بھی مراد ہے۔
عبارت یہ ہے:و اما قولھم معنٰی قولہ
الطلاق مرتان ان معناہ مرۃ بعد مرۃ قخطاء بل ھذا الایۃ کقولہ تعالیٰ نؤتھا اجرھا مرتین
ای مضاعفًا معًا (ج۱۰، ص۱۶۸)۔
(۴)اسی طرح جماعت اہلحدیث کے سرپرست علامہ ثناء اﷲ امرتسری کے فتاویٰ ثنائیہ میں اسی
آیت کی تفسیر ہماری تائید میں ہے ملاحظہ ہو، ارشاد ہے: الطلاق مرّتان…… اس آیت کریمہ سے صاف طور پر ثابت ہے کہ طلاق بدفعات (الگ
الگ تین طُہروں میں) دی جائے تاکہ رجعت (رجوع کرنے) کا اختیار باقی رہے ایک ساتھ طلاق
دینے سے رجعت کا اختیار سلب (ختم) ہوتا ہے اسی طلاق کو بِدْعِیْ کہتے ہیں (ج۲، ص۲۴۱، طبع لاہور) یعنی تین طلاق ایک ساتھ دے دیں تو رجوع کا حق ختم
ہو جاتا ہے اور عورت شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر اقبال ؔمرحوم نے خوب کہا ہے
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی اگر تو میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
ایک اہم اصول اور احادیث مبارکہ:
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لازم ہے تم پر میرا
طریقہ اور خلفاءِ راشدین کا طریقہ۔ حدیث یہ ہے:قال علیہ السلام……علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین …… (صحیح ابن ماجہ، ص۲) اس اصول کے مطابق سب سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں اس کے بعد حضرات خلفاء راشدین میں خاص
طور پر حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اﷲ عنھم کے ارشادات نقل کریں گے۔
(۱)چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے، سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے جب ایسے آدمی
کے بارہ میں پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوں تو آپ ارشاد فرماتے: اگر
ایک یا دو بارطلاق دی ہو تو (عدت میں) رجوع کرنا حلال ہے کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے اوراگر تین طلاق دی ہوں (اکٹھی یا
الگ الگ) تو عورت (مرد پر) حرام ہو جاتی ہے جب تک دوسرے کسی شخص سے نکاح (اور صحبت)
نہ کر لے۔ (یعنی ایسی عورت کو دو عدتیں گزارنا ہوں گی تب پہلے کے لیے حلال ہو گی ایک
عدت پہلے شوہر کی تین حیض پھر کسی اور سے نکاح و صحبت و طلاق کے بعد تین حیض بطور عدت
گزارنے کے بعد نئے حق مہر اور نئے نکاح کے ساتھ پہلے شوہر کی طرف لوٹ سکتی ہے۔) حدیث
یہ ہے: کان ابن عمر اذا سئل عمّن طلّق ثلاثًا قال لوطلقت مرّۃ او مرتین
فان النبی ﷺ امرنی بھذا (المراجعۃ) فان طلقھا ثلاثًا حرمت حتی تنکح زوجًا
غیرہ (ج۲، ص۷۹۲، کتاب الطلاق، مسلم شریف، ج۱، ص۴۹۶، کتاب الطلاق)۔
(۲)سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھیں
تو مطلقہ عورت نے (بعد عدت) کسی اور سے نکاح کر لیا تو اس کو دوسرے شوہر نے بغیر صحبت
کیے طلاق دے دی چنانچہ اس عورت کا مسئلہ پوچھا گیا کہ کیا یہ پہلے شوہر کے نکاح میں
آ سکتی ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا نہیں یہاں تک وہ دوسرا شوہر صحبت کرتا (پھر
طلاق دیتا) جیسا کہ پہلے شوہر نے صحبت کی۔ صحیح بخاری شریف میں ہے:
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا ان رجلًا طلق امرأتہ ثلاثًا فترزوجت
فطلق فسئل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اتحل للاول قال لا حتی یذوق عسیلتھا کما ذاق
الاوّل (ج۲، ص۷۹۱، مسلم شریف، ج۱، ص۴۶۳، نسائی شریف، ج۲، ص۱۰۱، بلوغ المرام، ص۷۵، ط:دھلی)۔
محدثین نے اس حدیث سے تین طلاق اکٹھی کا حکم سمجھا ہے، ملاحظہ
ہو فتح الباری شرح بخاری (ج۹، ص۳۰۱)، عمدۃ القاری شرح بخاری میں بھی یہی ہے (ج۶، ص۲۳۷)۔
(۳)صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں حضرت عویمر انصاری
اور ان کی بیوی کے درمیان لعان کا معاملہ ہوا جب وہ لعان سے فارغ ہوئے تو انھوں نے
اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں ۔ (ج۲، ص۷۹۱، کتاب الطلاق) یہی راوی حضرت سہل فرماتے ہیں کہ میں آپﷺ کے پاس تھا تو آپ ﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا۔
(صحیح ابوداؤ شریف ، ج۱، ص۲۳۲، باب فی اللعان)۔
(۴)امام ابن ماجہ رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب صحیح ابن ماجہ میں باب ذکر کرتے ہیں اس شخص
کے بارے میں جس نے ایک مجلس میں تین طلاق دیں (باب من طلق ثلاثًا فی مجلس واحدٍ)۔اور
اس کے تحت حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اﷲ عنھا کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کو ان کے شوہر
نے تین طلاق دے دی تھیں …… اﷲ کے رسول ﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا۔
(کتاب الطلاق، حدیث نمبر ۲۰۲۴)۔
’’ للعاقل تکفیہ الاشارۃ والسفیہ لاتفیدہ العبارۃ ‘‘
حضرات خلفاء راشدین رضی اﷲ عنھم کے فتاویٰ:
(۱)حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا
خط بنام حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ:
جو شخص اپنی بیوی سے یوں کہے کہ تجھے تین طلاق ہیں تو وہ تین
طلاق ہی ہوں گی۔ عبارت یہ ہے: من قال انتِ طالق ثلاثًا
فھی ثلاثٌ۔ (سنن سعید بن منصور، ج۳، ص۲۵۹، رقم الحدیث:۱۰۶۹)۔
(۲)تین طلاق اکٹھی دینے والے
کو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا سزا دینا:
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے
پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہیں تو آپ
اُس کی خوب پٹائی کرتے اور اس میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے۔ روایت یہ ہے: عن انس …… اوجعہٗ ضرباً و فرّق بینھما (مصنف ابن ابی شیبۃ، ج۵، ص۱۰، باب من کرہ ان یطلق الرجل)۔
(۳) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا میں
نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہے تو آپ نے فرمایا تیری بیوی تجھ سے تین طلاق کے
ساتھ الگ ہو گئی ہے (بقیہ تجھ پر گناہ ہے)۔ (محلّٰی ابن حزم، ج۱۰، ص۱۷۲، زاد المعاد، ج۲، ص۲۵۹، طحاوی شریف، ج۲، ص۳۰)۔
(۴)حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار
طلاق دی ہے آپ نے فرمایا تیری بیوی تجھ سے تین طلاق کے ساتھ جدا ہو چکی ہے (بقیہ تجھ
پر گناہ ہے)۔ (سنن کبریٰ بیھقی،ج۷، ص۳۳۵، محلّٰی ابن حزم، ج۱۰، ص۱۷۲، زاد المعاد، ج۲، ص۲۵۹، مصنف ابن ابی شیبۃ، ج۵، ص۱۳)جماعت اہلحدیث کے امام علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی
اﷲ عنہ تین طلاق اکٹھی ہونے کے قائل تھے۔ (نیل الاوطار، ج۶، ص۱۹۷)۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
ائمہ اربعہ کا اجماع:
سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین کی چاروں فقہ متفق ہیں کہ ایک مجلس
کی تین طلاق شرعاً تین ہی واقع ہوتی ہیں حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
(۱)فقہ حنفی کا معتبر فتاویٰ شامی (ج۳، ص۴۳۴، ط: ملتان)۔
(۲)فقہ مالکی کی معتبر کتاب بدایۃ المجتھد (ج۲، ص۴۶، ط:بیروت)۔
(۳)فقہ حنبلی کی معتبر کتاب المغنی لابن قدامہ (ج۷، ص۲۸۲، ط:بیروت)۔
(۴)فقہ شافعی کے ترجمان علامہ نووی نے بھی اسی طرح لکھا: شرح نووی علی المسلم (ج۱، ص۴۷۸، ط:نور محمد کراچی)۔
لہٰذا تین طلاق اگر دی جائیں جیسا کہ صورت مسؤلہ میں دی گئیں
تواس صورت میں عورت شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، رہن سہن اور رجوع کسی طرح بھی شرعاً درست
نہیں ہے بغیر تحلیل شرعی ہونے کے دوبارہ نکاح کرنا بھی حرام ہے۔
تین طلاق کے بعد رجوع کا فتویٰ دینے والے کا شرعی حکم:
(۱)محدث امام زہری رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں
دیں اور اسے کسی (مفتی) نے فتویٰ دیا کہ رجوع کر لو اس بنا پر اس نے تین طلاقوں والی
عورت سے صحبت کر لی تو جس نے فتویٰ دیا ہے اسے عبرتناک سزا دی جائے گی اور مرد و عورت
کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی اور اس ناجائز صحبت کا تاوان بھی برداشت کرنا پڑے گا۔
(مصنف عبدالرزاق، ج۷، ص۳۴۰)۔
(۲)فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے کہ اگر کسی نے تین طلاقیں دیں اور پھر اس عورت سے رجوع
کر لیا اور کچھ مدت گزرنے کے بعد اس نے اس سے صحبت کی تو اس پر بالاجماع حد زنا جاری
ہو گی۔ عبارت یہ ہے: لو طلقھا ثلاثًا ثم راجعھا ثم وطئھا
بعد مضی المدۃ یحدا جماعًا (ج۲، ص۱۳۸)۔
ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں سعودی حکومت کا اہم فیصلہ:
حکومت سعودیہ نے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ حرمین شریفین اور عرب
کے دیگر علماء کرام پر مشتمل ایک تحقیقی مجلس قائم کر رکھی ہے جس کا فیصلہ تمام ملکی
عدالتوں میں نافذ ہے بلکہ خود بادشاہ بھی اس کا پابند ہے اس مجلس میں تین طلاق اکٹھی
دے دینے کا مسئلہ پیش ہوا مجلس کے علماء کرام نے اس مسئلہ سے متعلق قرآن و حدیث اور
تفاسیر کی سینتالیس کتابیں کھنگالنے اور سیر حاصل بحث کے بعد صاف اور واضح الفاظ میں
یہ فیصلہ دیا ہے کہ ’’ایک مجلس میں ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی ہیں‘‘۔
یہ بحث ربیع الثانی ۱۳۹۳ھ میں ہوئی تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ (موجودہ جماعت اہلحدیث چونکہ اکثر اختلافی
مسائل میں اہل حرمین کے عمل کو بطورِ حجت پیش کرتے ہیں یہ فیصلہ بھی علماء حرمین کا
ہے اس لیے جماعت اہلحدیث پر حجت ہے اور قوی امید ہے کہ عقل و دانش سے کام لیتے ہوئے
تسلیم کریں گے۔ )(مجلہ البحوث الاسلامیہ، رئیس التحریر عثمان الصالح، طبع الریاض، یہ پورا رسالہ عربی زبان میں ۲۱۱ صفحات پر مشتمل خیرالفتاویٰ، ج۵، ص۴۴۹ سے لے کر ۶۶۰ پر چھپ چکا ہے)۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری کی حدیث رکانہ اصل میں مسند احمد
(ج۱،ص۲۶۵) پر ہے، اس پر مختصر تبصرہ لیجیے:
(۱)مسند احمد کی روایت کو امام بخاری نے ’’مضطرب و مُعلّل‘‘ قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ
ابن حجر نے لکھا ہے (التلخیص الحبیر، ج۳، ص۲۱۳، ط:مصر) لہٰذا اس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں ہے۔
(۲)علامہ ابن البر نے اپنی کتاب التمھید میں ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
(۳)علامہ ابوبکر رازی نے اس حدیث کو ’’منکر‘‘ کہا ہے (احکام القرآن، ج۱، ص۳۸۸)۔
(۴)علامہ ابن ھمام نے بھی مسند احمد کی روایت کو ’’غیر معتبر‘‘ قرار دیا ہے اور کہا
کہ صحیح روایت وہ ہے جس کو امام ابو داؤد، امام ترمذی، امام ابن ماجہ نے روایت کیا
ہے جس میں رکانہ سے ایک کا ذکر ہے وہ ’’طلاق بَتّہ‘‘ ہے۔ (فتح القدیر، ج۳، ص۳۳۱)۔
(۵)علامہ ابن جوزی نے بھی مسند احمد کی روایت کو ’’غلط‘‘ قرار دیا ہے اور اس کی سند
میں محمد بن اسحاق ’’مجروح راوی‘‘ ہے (جس کو امام مالک نے ’’دَجّال‘‘ کہا ہے)، دوسرا
راوی داؤد ٗوہ اس سے ’’زیادہ ضعیف‘‘ ہے۔ (العلل المتناھیہ فی الاحادیث الواھیہ، ج۲، ص۱۵۱)۔
لہٰذا مسند احمد کی روایت کا حوالہ دے کر مسلم قوم کو گمراہ
کرنا حرام اور ناجائز بات ہے، جھوٹی احادیث پیش کرنے سے شرم کریں اور اپنی آخرت خراب
نہ کریں۔
صحیح مسلم ( ص۴۹۷)میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما کی روایت تین طلاق ایک
سمجھی جاتی تھی اُس کا حل ذیل میں ہے:
نمبر(۱):عظیم محدث و فقیہ علامہ زاہد الکوثری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
کہ مسلم شریف کی روایت ابن عباس کا ایک راوی ’’طاؤس‘‘ نامی ہے ان کا بیٹا (محدث تھا)
اپنے شاگرد حضرت معمر کو کہنے لگا کہ جو شخص تمھیں (میرے والد گرامی) طاؤس کے بارے
میں یہ بتائے کہ وہ تین طلاق کے ایک ہونے کی روایت کرتے تھے تو اُس شخص کو اس بیان
میں جھوٹا سمجھو (اس لیے طاؤس کے حوالہ سے مسلم کی یہ روایت صحیح نہیں ہے)۔ (بحوالہ کتاب الاشفاق علٰی احکام الطلاق فی الرد علٰی من یقول ان الثلاث واحدۃ، ص۳۰۹)۔
نمبر(۲):عظیم محدث علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ
روایت طاؤس راوی کا وہم ہے اور غلطی پر مبنی ہے (اس لیے بطورِ دلیل پیش کرنا انتہائی
نفسانی دھوکا ہے)۔ عربی عبارت یہ ہے:عن ابن عبدالبر انہ قال
روایۃ طاؤس وھمٌ و غلطٌ۔ (تفسیر القرطبی، ج۳، ص۱۲۹، طبع مصر۱۳۵۴ھ)۔
نمبر(۳):یہ روایت اس لیے بھی قابل اعتبار نہیں ہے کہ اس روایت کے قائل
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما کا خود بھی اس پر عمل نہیں بلکہ تین طلاق ایک شمار
کی جانے کے خلاف کثیر فتاویٰ جاری فرمائے (جو آگے آ رہے ہیں) جن کا مفہوم یہی ہے کہ
تین طلاق دی جائیں تو تین ہی سمجھیں ایک خیال نہ کریں، جبکہ محدثین و فقہاء کے نزدیک
یہ اصول مسلّم ہے کہ جب راوی سے اپنی روایت کے خلاف فتویٰ یا عمل ثابت ہو جائے تو یہ
اس کی روایت کے غیرمعتبر ہونے کی دلیل ہے اس لیے یہ روایت دلیل نہیں بن سکتی۔ عربی
عبارت یہ ہے: امتناع الراوی عن العمل بہ مثل العمل بخلافہ فیخرج عن الحجیۃ
(نور الانوار، ص۹۸، و اصول سرخسی، ج۲، ص۶، طبع دکن)۔
بعض بدفہم اور نادان دوست اب بھی اس مذکور روایت کو عوام میں
بغیر تحقیق کے بتا دیتے ہیں اور یوں تین طلاق دینے والا شوہر مطلقہ زوجہ سے ساری زندگی
حرام گزارتا ہے جس میں جان بوجھ کر غلط فتویٰ دینے والا شرعاً برابر کا مجرم ہے (سنن
دارمی، ج۱، ص۳۲)۔ الامان الحفیظ
نوٹ: چونکہ فریق مخالف نے
صحیح مسلم اور مسند احمد کی حدیث کا حوالہ دیا ہے جس کے مرکزی راوی حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنھما ہیں، ذیل میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے فتاویٰ پیشِ
خدمت ہیں تاکہ عام قارئین حضرات بھی ان فتاویٰ کو پڑھ کر اصل حقیقت معلوم کر سکیں
کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی رائے یہی تھی کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہیں،
ایک نہیں۔ اور تین طلاق کے ایک طلاق واقع ہونے کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی
طرف منسوب کرنا اُن کی رائے کے خلاف ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما کے چند فتاویٰ ملاحظہ ہوں:
(۱)سیدنا عبداﷲ بن عباس نے حضرت ابوہریرہ سے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! آپ فتویٰ دیں
کہ آپ کے پاس الگ ہونے والی عورت آئی ہے حضرت ابوہریرہ نے فرمایا ایک طلاق اس کو بائنہ
(جدا) کر دے گی اور تین اس کو حرام کر دیں گی یہاں تک کہ دوسری جگہ نکاح کرے اور حضرت
ابن عباس نے بھی اسی کی مثل جواب دیا۔ عربی عبارت یہ ہے:
قال ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما لابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ افتہ
یا باھریرہ فقد جاء تک معضلۃ فقال ابوھریرہ الواحدۃ تبنیھا و الثلاث تحرمھا حتی تنکح
زوجًا غیرہ و قال ابن عباس مثل ذلك۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی، ج۷، ص۳۳۵)۔
(۲)حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنھما سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو
سو طلاق دی ہے آپ نے فرمایا تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تجھ سے تیری بیوی جدا
ہو گئی۔ عربی عبارت یہ ہے:
سئل ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما عمن طلق امراتہ مائۃً قال عصیت
ربك وبانت منك امراتك (سنن کبریٰ للبیھقی، ج۷، ص۳۳۷)۔
(۳)حضرت مالک بن حارث فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداﷲ بن عباس کی خدمت میں آیا تو
اس نے کہا بے شک میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہیں آپ نے فرمایا بیشک تیرے
چچا نے اﷲ کی نافرمانی کی اور شیطان کی اطاعت کی تو حضرت نے اس کے لیے اس پر کوئی گنجائش
نہیں نکالی۔ مالک بن حارث فرماتے ہیں میں نے عرض کیا آپ اس شخص کے بارہ میں کیا
کہتے ہیں جو اس عورت کو شوہر کے لیے حلال کرے (حلال ہونے کا فتویٰ دے) تو فرمایا کہ
جو اﷲ سے چال بازی کرے گا اﷲ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے گا۔ عربی عبارت
یہ ہے:
حدثنا ابراھیم بن مرزوق الی اٰخر السند عن مالك بن الحارث قال
جاء رجل الی ابن عباس فقال ان عمی طلق امرأتہ ثلٰثًا فقال ان عمك عصی اللّٰہ فاثمہٗ
اللّٰہ و اطاع الشیطٰن فلم یجعل لہ مخرجًا فقلت کیف تریٰ فی رجل یحلھالہٗ فقال من یخادع
اللّٰہ یخادعہٗ (طحاوی شریف، ج۲، ص۳۷، مصنف ابن ابی شیبۃ، ج۵، ص۱۱، سنن سعید بن منصور، ج۳، ص۲۵۸، اغاثۃ اللھفان، ج۱، ص۱۴۶)۔
(۴)حضرت محمد بن ایاس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو صحبت سے قبل ہی تین
طلاق دے دیں پھر چاہا کہ اس سے نکاح کر لوں اس لیے مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا تو میں
بھی اس کے ساتھ ہو گیا وہ حضرت ابن عباس اور ابوھریرہ کے پاس گیا دونوں نے فرمایا کہ
اب تم اس سے نکاح نہیں کر سکتے یہاں تک کہ دوسرے آدمی سے نکاح کرے اس نے کہا میں نے
تین سے نیت ایک طلاق کی کی تھی تو حضرت ابن عباس نے فرمایا تو تین طلاق (واضح )اکٹھی
دے کر وہ گنجائش ختم کر دی جو تجھے حاصل تھی۔ عربی عبارت یہ ہے:
عن محمد بن ایاس بن بکیر انہ قال طلق رجل امرأتہ ثلٰثًا قبل
ان یدخل بھاثم بدألہ ان ینکحھا فجاء یستفتی قال فذھبت معہ فسال ابا ھریرۃ و ابن عباس
فقالا لا ینکحھا حتی تنکح زوجًا غیرہ فقال انما کان طلاقی ایاھا واحدۃ قال ابن عباس
ارسلت من یدك ماکان لك من فضل (مؤطا امام محمد، ص۲۵۹، طحاوی، ج۲، ص۳۷، سنن کبریٰ بیھقی، ج۷، ص۳۳۵، مؤطا امام مالک، ص۵۲۱)۔
(۵)حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس کے پاس تھا کہ ان کے پاس ایک
شخص نے کہا میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہیں راوی کہتے ہیں کہ ابن عباس خاموش
ہو گئے، ہم نے گمان کیا کہ اس کی بیوی کو واپس کر دیں گے پھر فرمانے لگے کہ تم میں
کوئی ایک بے وقوفی والا کام کرتا ہے پھر کہتا ہے کہ اے ابن عباس، اے ابن عباس، اﷲ رب
العزت فرماتے ہیں: و من یتق اللّٰہ یجعل لہٗ مخرجًا
(سورۃ طلاق، آیت نمبر۲) جو اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں
آپ اﷲ سے ڈرے نہیں ہیں میں آپ کے لیے نکلنے کا راہ نہیں پاتا آپ نے اﷲ کی نافرمانی
کی ہے آپ کی بیوی آپ سے جدا ہو گئی ہے اور بے شک اﷲ کا فرمان ہے: یٰٓایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن ۔ عربی عبارت یہ ہے:
عن مجاھد قال کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال انہٗ طلق امرأتہ
ثلاثًا قال …… انك لم تتق اللّٰہ فلا اجد لك مخرجًا عصیت ربك و بانت منك امرأتك و ان
اللّٰہ قال یٰٓایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن۔ (سنن کبریٰ، ج۹، ص۴۴۴، مترجم باب الاختیار للزوج……، حدیث۱۴۹۴۳، اخرجہ ابوداؤد، ج۱، ص۲۹۹)۔
امام ابوداؤد رحمۃ اﷲ علیہ اس حدیث کے آخر میں حضرت عبداﷲ بن
عباس کے پانچ شاگردوں کی اسناد ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ ان حضرات نے متفقہ طور پر ابن
عباس سے نقل فرمایا ہے کہ انھوں نے تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا تھا۔ (ابوداؤد، ج۱، ص۲۹۹)۔
(۶)حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں حضرت عبداﷲ بن عباس سے ایسے شخص کے بارہ میں سوال
ہوا جس نے ہزار طلاق اپنی بیوی کو دی ہے تو آپ نے فرمایا تین طلاقوں نے تیری بیوی کو
تجھ پر حرام کر دیا اور باقی تیرے ذمہ گناہ ہے جو تو نے اﷲ کی آیات کے ساتھ مذاق کیا
ہے۔ عربی عبارت یہ ہے:
عن سعید بن جبیر عن ابن عباس فی رجل طلق امرأتہ الفًا قال امّا
ثلاثٌ فتحرم علیك امرأتك و بقیتھن علیك وزرٌ اتخذت اٰیات اللّٰہ ھزوًا۔ (سنن کبریٰ
للبیھقی، ج۹، ص۴۴۵)۔
(۷)حضرت عمر، ابو ہریرہ، عبداﷲ بن عباس اور ابن شھاب زھری وغیرہ کہتے ہیں کہ جس نے
تین طلاق دی اپنی زوجہ کو قبل از رخصتی و خلوت صحیحہ تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں
گی اور وہ شوہر کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ شوہر کے علاوہ اور کسی سے نکاح کرے۔ عربی
عبارت یہ ہے:
کان عمر و ابو ھریرۃ و ابن عباس و ابن شھاب زھری وغیرھم یقولون
من طلق امرأتہ قبل الدخول بھا ثلاثًا لم تحل لہٗ حتی تنکح زوجًا غیرہ (کشف الغمہ للشعرانی،
ج۱، ص۱۰۱)۔
تین طلاق ایک ہونے کا مذہب کس کا ہے؟ ملاحظہ ہو:
(۱)مرزا غلام احمد قادیانی کافر ملعون کہتا ہے کہ میرا مذہب یہ ہے کہ تین طلاق ایک
ہے، دیکھیے: فتاویٰ احمدیہ (ج۱، ص۸۸)۔
(۲)شیعہ اثنا عشریہ امامیہ جن کے کفر پر پوری امت متفق ہے ان کا مذہب یہ ہے کہ ایک
طلاق دو ، یا سو طلاق دو ہمارے نزدیک ایک واقع ہو گی، دیکھیے ان کی معتبر کتاب فروع کافی (ج۶، ص۷۱، طبع ایران) اور الاستبصار (ج۳، ص۲۸۷، طبع ایران)۔
شیعہ حضرات اور جماعۃ الدعوۃ کے لیے بطورِ عبرت حضرت امام جعفر
رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ ہو:
اہلبیت رسول کا فتویٰ:
حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ سے حضرت ابان نے سوال کیا
ایسے آدمی کے بارہ میں جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوں تو آپ نے فرمایا: وہ عورت
اس سے جدا ہو گئی ہے اور وہ حلال نہیں رہی جب تک کہ وہ دوسرے کسی شخص سے نکاح نہ کرے
تو حضرت ابان نے کہا میں لوگوں کو اس بات کا فتویٰ دے دوں تو آپ نے فرمایا: ہاں دے
دو یعنی تین طلاق واقع ہونے کو شرعاًدرست قرار دیا گیا (دار قطنی، ج۲، ص۳۴۳) عربی عبارت یہ ہے:
عن ابان ابن تغلب قال سالت جعفر بن محمد عن رجل طلق امرأتہ ثلاثًا
فقال بانت منہ و لا تحل لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ فقال اُفتی الناس بھذا؟ قال: نعم۔
اگر اب بھی جماعۃ الدعوۃ کو شیعہ مذہب کی پیروی کا شوق ہے تو
اُن کا ایک اور مسئلہ ملاحظہ ہو جس پر جماعت اہلحدیث تقریباً سب کا عمل ہے اس کو بھی
صحیح مان لیں، امام جعفر صادق کے حوالہ سے شیعہ کی معتبر کتاب ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ (ج۱، ص۷۵، قبیل باب غسل المیّت) میں ہے کہ جو شخص مٹھی بھر سے لمبی ڈاڑھی
رکھے گا وہ جہنمی ہے۔ لہٰذا توبہ کریں اور اہلسنت کے مذہب کا احترام کریں، حرام خوری
سے بچیں۔
خذ ھذا المقال …… و لا تقع فی القیل و القال
فقط
واللّٰہ الحق وھو یھدی الی الحق، و الحق احق ان یتبع فماذا بعد
الحق الا الضلال فانّٰی یصرفون
کتبہ العبد محمد اعظم ہاشمی غفرلہ الغنی
غرہ ربیع الثانی ۱۴۳۷ھ
تصدیق
محقق العصر حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
العالی
۔۔۔(مہتمم و صدر مفتی جامعہ حقانیہ، ساہیوال ضلع سرگودھا)۔۔۔
باسمہٖ سبحانہٗ و تعالٰی
احقر نے مولانا محمد اعظم ہاشمی سلمہٗ کا جواب حرفاً حرفاً پڑھا،
ماشاء اللّٰہ انھوں نے دلائل سے ثابت
کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی واقع ہو جاتی ہیں اس کے بعد بغیر تحلیل شرعی
کے دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا، ھذا ھو الحق فماذا بعد
الحق الا الضلال، و الحق احق ان یتبع، اہلِ حق کو حق کا اتباع
واجب ہے انھیں غیر مقلدوں کے مغالطات میں نہیں آنا چاہیے ائمہ اربعہ اور جمہور اہل
السنۃ کا مسلک یہی ہے جو اس تحریر میں لکھا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ حق پر قائم رہنے کی توفیق
عطا فرمائے اور گمراہی سے بچائے آمین۔ فقط
احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا
No comments:
Post a Comment