۲۲رَجب کے کونڈوں کی حقیقت کیا ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ ۲۲؍رَجب کے کونڈے شریعت میں ثابت ہیں یا نہیں؟ بعض سنی حضرات اس
پر عمل کرتے ہیں کیا ان کے لیے ایسا کرنا درست ہے؟ تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔
الجواب بعون الوھاب
کونڈوں کی رسم مذہب اہل سنت والجماعت میں محض بے اصل ،خلاف شرع
اور بدعت ممنوعہ ہے۔ کیونکہ نہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ہے نہ
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم و تابعین و مجتہدین حضرات رحمۃ اﷲ علیہم سے منقول ہے،جیسا کہ
عقائد کی معتبر کتاب شرح المقاصد میں ہے’’شریعت میں بدعت یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسی
نئی بات نکالی جائے جو نہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے دور میں اور نہ تابعین عظام رحمۃ
اﷲ علیہم کے دور میں ہو،اور نہ ہی اس پر کوئی دلیل شرعی قائم ہو یعنی چاروں ائمہ (امام
ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ،امام مالک بن انس ،امام محمدبن ادریس شافعی ،امام احمدبن
حنبل رحمۃ اﷲ علیہم)میں سے کسی نے اسے قرآن و سنت سے نہ سمجھا ہو۔ (المبحث الثامن فصل ثالث ج۲ص۲۷۱)۔
دین اسلام میں بدعت پر عمل کرنے والے کے بارے میں حضرت نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے چند ارشادات ملاحظہ ہوں:
(۱)’’بدعتی کا نہ روزہ قبول ہوتا ہے نہ نماز ،نہ صدقہ ،نہ حج ،نہ
عمرہ ،نہ جہاد،نہ نفلی عبادت ،نہ فرضی عبادت اوراسلام کے دائرہ سے اس طرح نکل جاتا
ہے جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال۔‘‘(ابن ماجہ ص۶)۔
(۲)اَصْحَابُ الْبِدَعِ کِلَابُ النَّار․ ’’بدعتی لوگ جہنم کے کتے ہیں‘‘۔ (کنز العمال ج۱ص۲۱۸ فصل فی البدع، کشف الغمہ للشعرانی ج۱ص۳۳)۔
(۳)اَصْحَابُ الْبِدَعِ کِلَابُ اَہْلِ النَّارِ․’’بدعتی لوگ جہنمیوں کے
کتے ہیں (یعنی یہ بدعتی لوگ جہنمیوں کو بھونکتے رہیں گے)‘‘۔ (حوالہ بالا،و فتاویٰ افریقہ
ص ۱۰۹مسئلہ نمبر ۱۸۱از اعلیٰ حضرت بریلوی)۔
کونڈوں کی ابتداء:
کونڈوں کی ابتداء ۱۹۰۶ء میں ریاست رام پور (یوپی)میں امیر مینائی لکھنؤی کے خاندان
سے ہوئی۔(جواہر المناقب از منشی حامد حسین قادری )۔
ایک خاص بات اس رسم میں یہ بھی ہے کہ یہ رسم دشمنان صحابہ کرام
رضی اﷲ عنہم کی ایجاد ہے ،کیونکہ ۲۲رجب کو جناب حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ کی نہ تاریخ پیدائش
ہے اور نہ اُن کی تاریخ وفات ہے،اس کے برعکس تاریخ کی تمام کتب میں ان کی ولادت ۸رمضان المبارک ۸۰ھ یا ۸۳ھ میں ہوئی اور وفات ۱۵شوال ۱۴۸ھ میں ہوئی۔نیزشیعہ کی
معتبر کتاب تحفۃ العوام میں ہے کہ امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول اور وفات ۱۵ شوال کوہوئی۔ (ص ۲۰۴ مطبوعہ کتب خانہ حسینیہ محلہ شیعاں موچی دروازہ لاہور)۔
تو معلوم ہواکہ اس تاریخ یعنی ۲۲رجب کو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔البتہ کاتب وحی امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی وفات ۲۲رجب۶۰ھ کو ہوئی۔(سیر اعلام النبلاء ج ۳ص ۱۶۲)۔
اس تحقیق سے ظاہرہے کہ اس رسم کو محض پردہ پوشی کیلئے حضرت امام
جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ورنہ درحقیقت یہ کونڈوں کی رسم (یعنی
حلوہ پوری )کاتب وحی صحابی رسول امیرالمومنین حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی وفات کی خوشی
میں منائی جاتی ہے۔جس وقت یہ رسم لکھنؤمیں ایجاد ہوئی اس وقت وہاں اہل سنت والجماعت
کاغلبہ تھا،تو ان کے خوف سے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی اعلانیہ نہ تقسیم کی جائے
تاکہ راز فاش نہ ہوسکے اور دشمنانِ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ خاموشی کے ساتھ اندھیرے
میں ایک دوسرے کے ہاں جا کر یہ شیرینی کھالیں۔جب اس کا چرچا ہوا اور راز کھلنے لگا
تو اس کو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ کی طرف منسوب کرکے لکڑہارے کی غلط روایت
گھڑکر حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ پر بہتان باندھا کہ انہوں نے خود اس تاریخ
یعنی ۲۲رجب میں اپنی فاتحہ کا
حکم دیا ہے،حالانکہ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں۔تاریخ کی کسی معتبرکتاب میں اس کا کوئی
ثبوت نہیں ہے۔ ہماری اس بات کی تائیدشیعہ مجتہد علامہ محمدحسین لکھنؤی (ساکن محلہ حسین
آبادتحصیل ساہیوال ضلع سرگودھا) بھی کررہے ہیں دیکھئے ان کی کتاب ’’اصلاح شیعہ ص۲۳۲‘‘کہ ۲۲رجب کے کونڈوں کی نیازکی
سند اور اس کا حوالہ کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں یہ ایک خود ساختہ مسئلہ ہے نہ کسی
امام سے منقول ہے نہ تاریخ تصدیق کرتی ہے) ۔لہٰذا برادران اسلا م کو اس غلط رسم سے
دور رہنا چاہیے اوراپنے دوسرے بھائیوں کو اس رسم سے بچانے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔نہ
خود اس رسم کو بجالائیں اور نہ اس میں شرکت کرکے دشمنانِ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی
خوشی میں شریک ہو کرحرام کام کے مرتکب ہوں ، کیونکہ کونڈوں کی رسم کرنے والے اکثر شیعہ
رافضی ہوتے ہیں جو حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو تبرّا(بے ادبی اور گستاخی) کرتے
ہیں جن کے بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی چشتی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے
ہیں کہ جو لوگ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر تبرّاکرتے ہیں ان کے گھر کا کھانا،کھانا انتہائی
بے غیرتی ہے،کسی شریف آدمی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی آدمی اس کے باپ داداکو گالیاں
دے اور وہ پھر اس کے گھر کا کھاناکھائے ۔(امداد المفتین ص ۹۷۲ طبع دارالعلوم کراچی)
یوں تو سید بھی
ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں چند بریلوی علماء کے تاثرات:
(۱)علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی گجراتی فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ
عنہ کو فاسق کہنے ولا شخص بالکل بے دین اور شیعہ ہے غالباًتقیہ کرکے اہل سنت بنا ہواہے۔
(۲)علامہ محمد عمر اچھروی بریلوی فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ و حضرت
عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی خلافت حقہ کا منکر اسلام سے خارج اور حضرت علی المرتضیٰ رضی
اﷲ عنہ کو ان سے افضل سمجھنے والا بے دین گمراہ شیعہ ہے اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان
رضی اﷲ عنہ کی برائی کرنے والا اور ان کو بکواس کرنے والا بھی اسلام سے خارج ہے ۔
(۳)علامہ مفتی غلام رسول صاحب بریلوی شیخ الحدیث جامعہ رضویہ فیصل آبادفرماتے ہیں
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ عادل،بااعتماد اور صالح صحابی ہیں۔سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم
کے گھر آپ کی حقیقی ہمشیرہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تھیں۔آپ بڑے عالم اور مجتہد
صحابی ہیں آپ کے لئے سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ آپ کی شان میں گستاخی
کرنا اورآپ کو برا کہنا رفض ہے ایسا شخص جو آپ کو برا کہے وہ شیعہ ہے ہرگز ہرگز سنی
نہیں۔اس کے پیچھے ہرگز ہرگز نماز نہ پڑھی جائے اسے اہل سنت والجماعت کی مسجد میں ہرگز
ہرگز امام نہ رکھا جائے ۔ (بحوالہ کتاب افضلیت سیدناصدیق اکبرص۱۱۵تا۱۸۶ طبع مکتبہ فریدیہ ساہیوال،مصنف ابو سعید غلام سرور صاحب قادری
بریلوی)۔
سیّدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دشمن کا ہولناک انجام:
علامہ ابن کثیر رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ نے حضوراکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس چاروں خلفائے راشدین
(حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہم)اور
پانچویں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ بیٹھے ہیں کہ اتنے میں ایک آدمی آگیا جس کا نام راشد
الکندی تھا۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اُسے دیکھ کرکہنے لگے یارسول اﷲ!یہ آدمی ہمیں
برابھلا کہتا رہتا ہے یہ سن کر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو سخت ڈانٹ پلائی
وہ شخص کہنے لگا میں انہیں تو نہیں کہتا البتہ معاویہ (رضی اﷲ عنہ) کو کچھ نہ کچھ کہا
کرتا ہوں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاتیری بربادی ہوکیا وہ میرے صحابی نہیں ہیں؟یہ
بات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تین بار دہرائی اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوہے کا
ایک ڈنڈااٹھاکر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو دیا اور فرمایاکہ اسے پیچھے کی طرف سے ماردو۔جب
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس کو ماراتومیری آنکھ کھل گئی جب صبح ہوئی تو میں نے سنا
کہ رات کو وہی شخص اچانک موت سے مرگیا۔(البدایہ والنہایہ ج ۸ص ۱۳۹) یقینا دشمنانِ صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اﷲ عنہم کا انجام
دنیا وآخرت میں بربادی ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ دشمنان اسلام اور دشمنانِ صحابہ کرام واہل
بیت عظام رضی اﷲ عنہ کو ہدایت کاملہ سے نوازے۔
وَمِنْ مَّذْھَبِیْ حُبُّ النَّبِیِّ وَآلِہٖ وَ صَحْبِہ
وَ لِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاھِبٗ
’’اور میرا مذہب نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی آل و صحابہ رضی اﷲ عنہم کی محبت ہے۔اور لوگوں کے لیے عشق
میں مختلف مذاہب ہیں۔‘‘
راقم الحروف محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
غرّہ رجب المرجب ۱۴۳۳ھ
تصدیق
محقق العصر حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر مفتی جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
الجواب صحیح
احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا
رجب المرجب ۱۴۳۳ھ
No comments:
Post a Comment