اگر مجلسِ
شوریٰ کی آراء میں اختلاف ہو جائے تو؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ خلافت اسلامیہ یا مدارسِ دینیہ، دینی تحریکات
کے اندر مجلس شوریٰ کی آراء میں اختلاف کی صورت میں فیصلہ امیر کے حکم کے مطابق ہو
گا یا مجلس شوریٰ قلت و کثرت کے اعتبار سے جیسے چاہیں فیصلہ کریں قرآن و سنت اور فقہاء
امت کے موقف کی وضاحت کریں۔
الجواب
بعون الملك الوھّاب
صورت
مسؤلہ میں مشورہ نافذ کرنے کا حق شرعی طور پر امیر کو حاصل ہے، امیر خواہ گھر کا ہو
یا مدرسہ و دینی تحریکات کا ہو اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں اور ملک کا حکمران ہو اُسے
دیندار، باکردار، راستباز لوگوں سے مشورہ لینا شرعاً مستحب ہے اور مشیرین کو مشورہ
میں اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں
کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے مشیرین میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کو میں نے سب
سے زیادہ حاضر دماغ، زیادہ عقلمند، زیادہ علم والا، زیادہ حوصلہ والاپایا اور میں نے
دیکھا ہے کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ ان سے مشکل کاموں میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ (حیاۃ
الصحابہ،ج۲،ص۴۱) معلوم ہوا
کہ مشیر حاضر دماغ، عقلمند صاحبِ علم و حلم ہو۔ نیز حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے اپنے بیٹے
عبداﷲ کو تین نصیحتیں فرمائی تھیں: ۱۔کبھی وہ
تم پر جھوٹ کا تجربہ نہ کریں ۲۔ان کا
راز کسی پر ظاہر نہ کرنا ۳۔ ان کے
سامنے کسی کی غیبت نہ کرنا۔ (حیاۃ الصحابہ،ج۲،
ص۶۶) معلوم ہوا کہ مشیر کا سچا ہونا، راز دارہونا،
فضول گوئی، عیب جوئی سے بچنے والا ہونا چاہیے۔ اب اگر امیر ان کے مشورہ پر عمل کرے
تو عامل بالمشورہ ہے ہی مگر مجلس شوریٰ کے مشورہ کے خلاف عمل کرے تب بھی مشورہ کے مطابق
ہی عمل کر رہا ہے کیونکہ مجلس شوریٰ کے ساتھ اس کا بھی ایک مشورہ شامل تھا جس پر اس
نے عمل کیا ہے نیز اس امیر کو اختیار ہے کہ اکثریت کو ترجیح دے یا اقلیت کو کیونکہ
امیر صاحب اختیار ہوتا ہے۔ اور مجلس شوریٰ محض مشورہ میں اظہار رائے کا درجہ رکھتی
ہے نفاذ کا نہیں چنانچہ قرآن کریم میں ہے و شاورھم فی الامر ’’اے نبی
آپ ان (صحابہ کرام) سے معاملات میں مشورہ لیں‘‘ آگے فرمایا فَاِذَا
عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (سورۃ اٰل عمران آیت نمبر۱۵۹) اس کے تحت تفسیر روح المعانی میں ہے۔ جب آ پ
عزم کر لیں یعنی مشورہ لینے کے بعد اس کام کے اجراء و نفاذ پر آپ اپنے دل میں پختہ
ارادہ کر لیں فاذا
عزمت ای اذا عقدت قلبك علی الفعل و امضاۂ بعد المشاورۃ (ج۲، ص۱۰۷،
پ۴) اسی آیت
کے تحت علامہ جصاص رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم جب صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہم سے مشورہ فرماتے تھے اور وہ اپنی اپنی رائے ظاہر کرتے تو آپ بھی ان
کے ساتھ اپنی رائے گرامی ظاہر فرماتے تھے پھر جس طرف آپ کے اجتہاد کا فیصلہ ہوتا اس
پر عمل فرماتے تھے: و قال العلامہ جصاص: و کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم اذا شاورھم فاظھروا اٰراء ھم ارتایٰٔ معھم و عمل بما اداہ الیہ اجتھادہ (ج۲، ص۴۱،
احکام القرآن)
اور علامہ جصاص رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مشورہ میں تین صورتیں ہو سکتی تھیں (۱) تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی رائے آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وسلم کی رائے کے موافق ہو (۲)بعض صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہ کی رائے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے موافق ہو اور بعض کی مخالف (۳)تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کی رائے آپ صلی
اﷲ علیہ کے خلاف ہو‘‘۔
بہر
صورت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی رائے پر عمل فرماتے تھے۔ و قال
العلامۃ جصاص: فجائزان توافق اٰراء ھم رأی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم و جائزان موافق
رأی بعضھم و جائزان یخالف رأی جمیعھم فیعمل صلی اللّٰہ علیہ وسلم حینئذ برأیہ․ (احکام القرآن، ج۲، ص۴۱)۔
حضرت
حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں: اور بدستور
ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے …… پھر مشورہ لینے کے بعد جب ایک جانب
رائے پختہ کر لیں خواہ وہ ان کے مشورہ کے موافق ہو یا مخالف پس اﷲ تعالیٰ پر اعتماد
کر کے اس کام کو کر ڈالیں۔ فائدہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں ’’یہ جو کہا گیا کہ خواہ
وہ ان کے مشورہ کے موافق ہو یا مخالف دلیل اس کی یہ ہے کہ لفظ عزم میں کوئی قید نہیں
لگائی اور اس سے معلوم ہوا کہ ……کثرتِ رائے کا ضابطہ محض بے اصل ہے ورنہ یہاں عزم میں
یہ قید ہوتی کہ بشرطیکہ آپ کا عزم کثرت رائے کے خلاف نہ ہو۔ (بیان القرآن، ص۶۹،پ۴) مذکور تفصیل
سے واضح ہوا کہ مجلس مشاورت کے بعد نفاذِ امر کا اختیار شرعاً صرف امیر کو ہے جہاں
امیر کو مامور اور مشیروں کو امیر کا درجہ دے دیا گیا وہ دستور غیر شرعی ہو گا اس کی
اصلاح شرعاً واجب ہے۔
………………………… فقط واللّٰہ
اعلم بالصواب و الیہ المرجع و الماٰب و عندہ اُمّ الکتاب
کتبہٗ العبد الاوّاب محمد اعظم
ہاشمی غفرلہٗ
الوھّاب
۲۳؍ذوالقعدہ ۱۴۳۲ھ
تصدیق
محقق العصر
حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر
مفتی جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
الجواب
صحیح و صواب، و اللّٰہ اعلم و عندہ ام الکتاب
احقر عبدالقدوس
ترمذی غفرلہٗ
دار الافتاء
جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا
۲۶؍رجب المرجب۱۴۳۵ھ
No comments:
Post a Comment