Aurton Ki Jamat e Traweeh, Namaz e Eidain Aur Juma Main Shirkat Ka Shari Hukam

عورتوں کی جماعت تراویح، نمازِ عیدین اور جمعہ میں شرکت کا شرعی حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عورتوں کے لیے نماز عید، جمعہ میں شرکت اور تراویح کی جماعت کرانا یا اس میں شرکت کرنا شریعت اسلامیہ میں کیسا ہے؟

الجواب بعون الوھّاب
ابتدائیہ:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’ہر دین کے لیے کوئی پہچان کی چیز ہوتی تھی۔ لیکن دین اسلام کے لیے پہچان کی چیز شرم و حیاء کی صفت ہے‘‘۔ (باب الحیاء، مؤطا امام مالک)۔
اسلام کا مزاج یہ ہے کہ عورت گھر کی ملکہ ہے اسے گھر میں رہنا باعث عزت و شرافت ہے۔ اور بغیر سخت مجبوری کے باہر نہ نکلے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’(اے عورتو) تم اپنے گھروں میں جمی رہو اور نہ نکلو بناؤ سنگھار کر کے زمانہ جاہلیت کی طرح‘‘۔ (سورۃ الاحزاب، آیت نمبر۳۳) جبکہ ایک لمبی حدیث میں ہے کہ عورتوں نے گھر سے باہر نکلنے کے بارے میں پوچھا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: کہ تم کو ضروری حاجت کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حدیث یہ ہے:
……فقال انہ قد اذن لکن ان تخرجن لحاجتکن (صحیح مسلم، کتاب السلام، باب اباحۃ الخروج للنساء لقضاء حاجۃ، جلد دوم)۔
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا عورتوں کا گھر سے باہر نکلنے میں کوئی حصہ (حق) نہیں ہے مگر جب کہ وہ انتہائی مجبور ہوں۔ حدیث یہ ہے:
عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس للنساء نصیب فی الخروج الامضطرۃ (اخرجہ الطبرانی کما فی کنز العمال، ج۸، ص۲۶۳
معلوم ہوا کہ عورت کے لیے شریعت کا اصل حکم یہ ہے کہ گھر کے ذریعہ پردہ میں رہے اور اپنی ذات کو اجنبی (غیر محرم) مردوں سے دور رکھے، بغیر ضرورت شدیدہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگ جاتا ہے (یعنی شیطان برے لوگوں کو عورتوں کی طرف متوجہ کر دیتا ہے)۔ علامہ منذری رحمۃ اﷲ علیہ نے صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے یہی حدیث ذکر کی ہے جس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ عورت جب تک گھر کے اندر ہوتی ہے تو اپنے رب سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ (الترغیب،ج۱، ص۱۳۶
اور باہر نکلنے کی صورت ملاحظہ ہو۔ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان کی صورت میں واپس جاتی ہے۔ ’’یعنی گھر سے عورت کا باہر جانا فتنہ سے خالی نہیں ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، ج۱، ص۱۲۹
خوش قسمت عورتیں کون سی ہیں؟
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے سوال فرمایا: ای شیءٍ خیر للمرأۃ کون سی چیز عورت کے لیے بہتر ہے؟ تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجلس ختم ہو گئی۔ پھر جب میں گھر گیا تو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا سے یہی سوال میں نے کیا۔ انہوں نے جواب دیا: لا یرین الرجال و لا یرونھن ’’یعنی عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ نہ مردوں کو دیکھیں اور نہ مرد اُن کو دیکھ سکیں (کہ زیادہ وقت گھر میں گزارہ کریں بغیر سخت مجبوری کے باہر نہ جائیں)‘‘۔ (معارف القرآن،ج۷، ص۲۱۶، سورۃ الاحزاب)۔
جبکہ قرآن کریم میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ (مرد سامنے آ جائے تو) اپنی نگاہ نیچی رکھیں۔ (سورۃ نور، آیت۳۲) اسی طرح مردوں کے لیے قرآن و حدیث میں یہی حکم ہے کہ (عورتیں سامنے آ جائیں تو) مردوں کو چاہیے کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں۔ (سورۃ نور، آیت نمبر۳۱) چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ جس نے کسی اجنبی (غیر محرم) عورت کے محاسن کی طرف رغبت و شہوت سے دیکھا تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ پگھلا کے ڈالا جائے گا۔
قال علیہ السلام من نظر الی محاسن اجنبیۃ عن شھوۃ صبّ فی عینیہ الانك یوم القیٰمۃ (المبسوط للسرخسی، ج۱۰، ص۱۵۲
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرمائی ہے کہ اﷲ کی لعنت اترے اس شخص پر جو کسی غیر محرم کو دیکھنے والا ہے اور لعنت ہو اس عورت پر جو (بغیر عذر شرعی گھر سے باہر نکل کر) اپنے آپ کو دکھاتی پھرتی ہے۔ (مشکوٰۃ، کتاب النکاح، ص۲۵۲
نیز عورت کے لیے مزّین (کڑھائی اور شوخ رنگ والا) برقعہ پہن کر بھی گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں۔ (کیونکہ اس میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا گناہ ملے گا اس لیے سادہ برقعہ استعمال کیا جائے)۔ (معارف القرآن، جلد۶، صفحہ۴۰۶، سورۃ النور، آیت نمبر۳۱ کے تحت)۔
جیسے غیر محرم عورت کو دیکھنا منع ہے اسی طرح کسی مرد کا کسی عورت کو ہاتھ لگانا بھی شرعاً حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ہاتھ کا گناہ غیر محرم عورت کو چھونا ہے۔ دوسری حدیث شریف میں ہے کہ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھو دی جائے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے حلال نہیں ہے۔ (طبرانی، بیہقی)۔
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک عورت پر نظر پڑ جانے کے بارہ میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (فوراً) نظر پھیر لو۔ (صحیح مسلم)۔
نظر کی حفاظت پر انعام:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نظر شیطان کے تیروں میں ایک زہریلا تیر ہے۔ جو شخص میرے ڈر سے اپنی نظر کو (غیر محرم عورت کی طرف دیکھنے سے) بچا لے گا تو میں اس کے بدلے میں اس کو ایسا پختہ ایمان عطا کروں گا۔ جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (معارف القرآن، ج۶، ص۳۹۹، سورۃ نور)۔
اصل جواب یہ ہے:
حدیث شریف میں ہے کہ عورتوں پر جمعہ اور عیدین کی نماز شرعاً واجب نہیں ہے۔ (کنز العمال، ج۱۶، جدید، و مشکوٰۃ، ص۱۲۱) البتہ تراویح کی نماز عورتوں کے لیے مردوں کی طرح سنت مؤکدہ ہے۔ (فتاویٰ شامی، باب التراویح) شریعت اسلامیہ میں عورتوں کو جیسے نماز فرض کی جماعت میں شرکت کے لیے گھر سے نکل کر کسی مسجد یا کسی گھر میں جانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح نماز جمعہ و عیدین اور تراویح کی جماعت کے لیے گھر سے باہر نکلنا شرعاً ناجائز ہے۔ نیز گھروں میں عورتوں کے لیے جیسے فرض نماز کی جماعت کروانا شرعاً مکروہ تحریمی ہے اسی طرح تراویح کی جماعت کروانا بھی مکروہ تحریمی ہے۔
و فی الدر المختار: یکرہ تحریما جماعۃ النساء و لو فی التراویح و فی الشامیۃ تحت قولہ یکرہ تحریما صرح بہ الفتح و البحر …… افادان الکراھۃ فی کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضاً او نفلاً (فتاویٰ شامی،ج۱،ص۵۶۵، باب الامامۃ)۔
یہ مسئلہ تمام فقہ کی کتابوں میں محققین اہلسنت نے لکھا ہے تقریباً ۱۴ کتب کی عربی عبارات نقل کی گئی ہے۔ دیکھیے: فتاویٰ محمودیہ جدید، ج۶، ص۴۷۱، طبع جامعہ فاروقیہ کراچی۔
اور جن احادیث میں بعض صحابیات کا جماعت کروانا ثابت ہے وہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا بعد میں منسوخ ہو گیا۔ دیکھیے: بدائع الصنائع۔
روی عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا انھا امت نسوۃ فی صلوٰۃ العصر …… و امت امّ سلمۃ نساء …… و یروی فی ذالك الاحادیث لکن تلک کانت فی ابتداء الاسلام ثم نسخت بعد ذالك۱، ص۲۶۲، باب الامامۃ، بیروت)۔
چنانچہ ہماری اس بات کی مزید تائید کہ عورت کے لیے عورتوں کی جماعت کروانا ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں عورتوں کی جماعت ختم ہو گئی جیسا کہ احادیث مبارکہ کے مفہوم سے سمجھ آ رہا ہے کہ عورتوں کی جماعت کے بارے میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے انتہائی ناگواری کا اظہار فرمایا جس سے حضرات محدثین نے عورتوں کے جماعت کے درست نہ ہونے پر دلیل پکڑی ہے۔ دیکھیے امام بخاری کے استاذ محدث عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ …… نے اپنی معروف کتاب ’’المصنف لابن ابی شیبۃ‘‘ میں پہلے یہ باب باندھا ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کروا سکتی ہے۔ جس میں سیدہ ام سلمہ اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہما کی امامت والی روایتیں نقل کی ہیں۔ جب کہ اس سے آگے والا باب یہ باندھا کہ عورت کے لیے عورتوں کو جماعت کروانا مکروہ (تحریمی) ہے۔ اس پر پہلے بطور دلیل خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی روایت ذکر کی ہے۔ جس میں عورتوں کو نماز (فرض ہو یا تراویح) کی امامت سے منع کرتے تھے۔ الفاظ یہ ہیں:
قال علی رضی اللّٰہ عنہ لا تؤم المراء ۃ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج۲، ص۲۹، بیروت) رجالہ کلھم ثقات …… فالسند صحیح (اعلاء السنن،ج۴،ص۲۱۵
پھر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے عظیم شاگرد محدث حضرت نافع رحمۃ اﷲ علیہ کی تحقیق نقل کی۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ کوئی عورت عورتوں کی جماعت کرواتی ہو۔ (یعنی صحابیات اور تابعیات نے عورتوں کی جماعت کروانا بالکل چھوڑ دیا تھا)۔ عبارت یہ ہے:
حدثنا عبدالوھاب بن عطاء عن ابن عون قال کتبت الی نافع اسالہ اتؤم المرءۃ النساء فقال لا اعلم المرءۃ تؤم النساء (المصنف لابن ابی شیبۃ، ج۲، ص۸۹، طبع بیروت)۔
اسی طرح عظیم محدِّث علامہ ظفر احمد عثمانی چشتی رحمۃ اﷲ علیہ نے عورتوں کی جماعت کے مکروہ (تحریمی) ہونے پر باقاعدہ باب باندھا ہے۔ (باب کراہۃ جماعت النساء) اور اس کے تحت سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔ کہ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا: ’’عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں‘‘۔ (اعلاء السنن، ج۴، ص۲۱۴
نیز محققین اہل سنت نے عورت کو فرض اور تراویح وغیرہ میں اونچی قرأت کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ دیکھیے بہشتی زیور، حصہ گیارہ۔ عورتوں کو کسی وقت بلند آواز سے قرأت کرنے کا اختیار نہیں بلکہ ان کو ہر وقت آہستہ آواز سے قرأت کرنا چاہیے۔ (ص۲۶، فرض نماز کے بعض مسائل کے تحت) اور تفسیر مظہری سورۃ نور آیت نمبر ۳۱ کے تحت ہے کہ عورت نماز میں اگر اونچی آواز سے قرأت کرے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ اس کی بنیاد معقول ہے کہ امام کو نماز میں اگر بھول ہو جائے تو اس کو بتانے کے لئے عورت سبحان اﷲ نہیں کہہ سکتی۔ بلکہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر بھولنے کی اطلاع کرے۔ (صفحہ۳۳۶، جلد،۸، مترجم)۔
لہٰذا عورتوں کو ہرحال میں تراویح کی جماعت سے بچنا واجب ہے۔ مگر حیرت ہے کہ آج کل تو تراویح میں عورت لاؤڈ اسپیکر پر بھی قرآن پڑھتی ہے جبکہ بغیر اسپیکر بھی نماز میں اونچی آواز سے قرأت کرنا شرعاً منع ہے، لہٰذا جب عورت امام بنے گی فرض یا تراویح میں تو اونچا پڑھنا پڑے گا جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔ اسی طرح عورتوں کا اپنی نماز تراویح کے لیے گھر میں کسی حافظ صاحب کو بلا کر امام بنانا بھی شرعا سخت منع ہے تفصیل کے لیے دیکھیں بہشتی زیور حصہ نمبر ۶، ص۵ رمضان شریف کی بعض رسموں کا بیان، کے تحت۔
عورتوں کو اپنے گھروں میں نماز فرض ہو یا تراویح بغیر جماعت پڑھنے کی ترغیب پر چند احادیث ملاحظہ ہوں۔
حدیث نمبر۱:
سیدہ ام حمید ساعدیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور گھر کے احاطہ میں نماز پڑھنا اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ چنانچہ سیدہ ام حمید رضی اﷲ عنہا نے یہ ارشادسن کر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر (کمرہ) کے سب سے آخری اور تاریک کونے میں ان کے لیے نماز کی جگہ بنا دی جائے چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنا دی گئی اور وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ سے جا ملیں۔ (مسند احمد، ج۶، ص۳۷۱، ایضاً فی الترغیب، ج۱، ص۱۸۰) اس حدیث کے راوی معتبر ہیں۔ (مجمع الزوائد،ج۲، ص۳۳،۳۴
حدیث نمبر۲:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کی سب سے بہترین مسجد ان کے گھر کی گہرائی ہے یعنی گھر کی اندرونی جگہ۔ محدث حاکم فرماتے ہیں اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (الترغیب،ج۱، ص۱۸۸، زجاجۃ المصابیح،ج۱،ص۱۳۱۳، باب الجماعۃ)۔
حدیث نمبر۳:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت چھپانے کی چیز ہے وہ جب گھرسے نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے (یعنی لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلق برے خیالات اور وسوسے ڈالتا ہے) اور عورت اپنے گھر کے سب سے زیادہ تاریک کمرے میں ہی (نماز پڑھے تو) اﷲ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتی ہے۔ اس حدیث کے راوی صحیح ہیں۔ (الترغیب و الترہیب، ج۱، ص۱۸۸، باب الجماعۃ)۔
حدیث نمبر۴:
سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکالتے تھے اور فرماتے کہ اپنے گھروں کو جاؤ یہ بات تمہارے لیے بہتر ہے(الترغیب،ج۱، ص۱۹۰) ۔ اس حدیث کے راوی باعتماد ہیں۔ (مجمع الزوائد،ج۲، ص۳۵
حدیث نمبر۵:
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ عورت کی سب سے زیادہ محبوب نماز اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جو اس نے بہت ہی تاریک کمرے میں پڑھی ہو (الترغیب و الترہیب،ج۱، ص۱۸۹) اس لیے عورتیں مسجد کی بجائے گھر میں نماز فرض ہو یا تراویح اکیلے اکیلے پڑھیں اور اﷲ سے محبت کا دعویٰ سچا کریں۔
حدیث نمبر۶:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت کا اپنے گھر کی اندرونی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا گھر کے کمرہ میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور گھر کے کمرہ میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ (اخرجہ ابو داؤد و اخرجہ الحاکم فی المستدرک و ابن خزیمۃ فی صحیحہ و فی کنز العمال،ج۸، ص۲۵۹، الترغیب،ج۱، ص۱۳۵)۔
نماز عیدین کے لیے بھی عورتوں کا نکلنا منع ہے:
حدیث نمبر۱:
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما اپنے گھر کی عورتوں کو نماز عیدین کے لیے گھر سے نہیں نکالتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، ج۲، ص۱۸۲
حدیث نمبر۲:
حضرت عروہ رضی اﷲ عنہ اپنے گھر کی عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں نہیں جانے دیتے تھے۔ (حوالہ بالا)۔
حدیث نمبر۳:
سید التابعین حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کا عیدین کی نمازوں کے لیے نکلنا مکروہ ہے۔ (حوالہ بالا)۔
تفصیلی جائزہ:
جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جا چکے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات میں تبدیلی شروع ہوئی اور عورتوں میں بناؤ سنگھار کا رواج بڑھ گیا، خوشبو لگانے کا مزاج بن گیا، تقویٰ زندگی میں کم ہونا شروع ہوا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عورتوں کے بڑھتے ہوئے خراب حالات پر قابو پانے کے لیے اپنے دور خلافت میں انہیں مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روک دیا ، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے مذکورہ فیصلہ کا ذکر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے سامنے کیا گیا تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے ارشاد فرمایا اگر یہ حالات جو اب پیدا ہو چکے ہیں (عمدہ لباس پہن کر، خوشبو لگا کر، بے پردگی کرتے ہوئے عورتوں کا مسجد جانا وغیرہ ……حاشیہ بخاری) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے تو مسجدوں سے عورتوں کو روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ (صحیح بخاری شریف، ج۱، ص۱۲۰، ابوداؤد شریف، ج۱، ص۹۱، باب ما جاء فی خروج النساء الی المساجد)۔
و فی الطحطاوی علی الدر (قولہ لفساد الزمان) و لذا قالت عائشۃ للنساء حین شکون الیھا من عمر لنھیہ لھن عن الخروج الی المساجد لو علم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما علم عمر ما اذن لکن فی الخروج (باب الامامۃ، ج۱، ص۲۴۵، بیروت۔ عنایہ شرح ھدایہ علی فتح القدیر، ج۱، ص۳۶۵، باب الامامۃ)۔
قال صاحب العنایۃ: اما فی زماننا …… لان حضور ھن من الجماعات متروك باجماع المتاخرین۱، ص۱۱۴، عنایہ علی الھدایہ)۔
اسی لیے شارح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ماحول کے خراب ہونے کی وجہ سے عیدین اور جمعہ وغیرہ کی نمازوں میں بھی شرکت سے عورتوں کو منع پر ہی فتویٰ دیا جائے گا۔ (عینی علی الکنز باب الامامۃ، فتاویٰ عالمگیریہ،ج۱، ص۵۶، باب الامامت)۔
رہا یہ سوال کہ اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں مسجد اور عیدگاہ میں نماز کے لیے آیا کرتی تھیں اس کے چند جواب یہ ہیں۔
(۱)اس بارے میں اوپر کی چند احادیث سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو عورتوں کا مسجدوں میں آنا پسند نہیں تھا۔ اسی لئے گھر کی نماز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں اپنے ساتھ نماز ادا کرنے سے بھی اعلیٰ قرار دے کر عورتوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔
(۲)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور شر اور فتنہ سے امن میں تھا۔ اس لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے روکا نہیں۔
(۳)علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ زمانہ نبوی میں شریعت کے مسائل سیکھنے کی غرض سے عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت تھی اور یہ غرض اب باقی نہیں ہے۔ کیونکہ شریعت کے احکام عام ہو چکے ہیں۔ اس لئے عورتوں کو (اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر) گھر کی چاردیواری میں ہی رہنا چاہیے۔ (اشعۃ اللمعات، ص۲۳۳، باب الجماعۃ)۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فتنہ و شر کے خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے عورتوں کو نمازوں میں مردوں کے ساتھ شریک ہونے سے منع کر دیا جس کو تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے پسند فرمایا۔ (فتاویٰ رحیمیہ، ج۶، ص۱۶۰) کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان دو آدمیوں کی پیروی کرنا یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی۔ (ترمذی شریف، ج۲، ص۶۸۵، ھذا حدیث حسن)۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یقینا سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی سیرت پر عمل کرنا ثواب ہے اور ان کے طریقے کو چھوڑ دینے میں عذاب ہے کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو اور قیامت تک کے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ان دو کی پیروی کرو۔ (فتاویٰ رحیمیہ، ج۳، ص۱۰۱، جدید)۔
گویا جس نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے فیصلے کا انکار کیا اس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا انکار کیا، لہٰذا جس طرح حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے فیصلہ کو حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اﷲ عنہم نے تسلیم کر لیا تھا اسی طرح آج کے مسلمان مردوں عورتوں کو حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں تسلیم کرنا چاہیے۔ انکار کرنا حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے فیصلے اور حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اﷲ عنہم کے فہم کی توہین کرنا ہے۔ غور کیجیے! عورتوں کا عید و جمعہ اور جماعت تراویح کی نماز کے لئے گھروں سے نکلنا، غلط لوگوں کی نظروں کا نشانہ بننے کی وجہ سے فتنے کا سبب ہے۔ اور قرآن و حدیث کے پیش نظر فتنہ حرام ہے جو کام حرام تک پہنچائے وہ بھی شریعت میں حرام ہے۔ دیکھیے! فقہ اسلام کی معتبر کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:
و لان خروجھن الی الجماعت سبب الفتنۃ و الفتنۃ حرام و ما ادّٰی الی الحرام فھو حرام۱، ص۲۶۲، باب الامامۃ، بیروت)۔
اس متفقہ شرعی اصول سے معلوم ہوا کہ عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر ضروری اور غیر ضروری عبادت کے لیے عورت کا نکلنا شریعت میں حرام ٹھہرا۔ لہٰذا عورتیں اپنے اپنے گھر میں جمعہ کے دن بغیر جماعت ظہر کی نماز پڑھا کریں اور عید کے دن نماز عید سے پہلے ذکر، تلاوت، درود شریف وغیرہ کرتی رہیں جب نماز عید ہو جائے تو بغیر جماعت کے گھر ہی میں شکرانہ کے دو نفل پڑھ سکتی ہیں۔ اسی طرح تراویح کی نماز بھی اپنے اپنے گھر میں بغیر جماعت کے پڑھیں۔ یعنی جس چیز کا شریعت نے ان کو حکم نہیں دیا وہ اس کو اپنے اوپر لازم کیوں سمجھتی ہیں! فافھم و لا تقع فی الوھم!
تائید مزید
(۱)دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ: ’’عورت عورتوں کو جماعت نہ کروائے‘‘
فتاویٰ محمودیہ ج۷ ص۲۸۰ جدید سے سوال و جواب ملاحظہ ہو!
سوال: اگر عورت حافظ قرآن ہو تو مثل مردوں کے تراویح میں ختم قرآن بصورت امامت اور عورتوں کی جماعت کروانا شرعاً درست ہے یا نہ؟
جواب:(عربی عبارت کے بعد) عورت کا امام بن کر عورتوں کو نماز پڑھانا …… مکروہ تحریمی ہے۔ قرآن کریم یاد رکھنے کی یہ صورت ہو سکتی ہے۔ روزانہ (ایک پارہ) والدہ، والد، بھائی، بہن، شوہر، اولاد کسی کو سنا دیا کرے اور جتنا سنائے اس کو تراویح یا دوسری نماز میں پڑھ لیا کرے اس سے قرآن بھی یاد رہے گا اور نمازوں میں لمبی تلاوت کرنے کی عادت بھی ہو جائے گی اور شرعی حکم (عورت جماعت نہ کروائے) کی خلاف ورزی بھی نہیں ہو گی۔ فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
                                                                                                                                حررہ العبد (مفتی) محمود حسن غفرلہٗ
                                                                                                                                (صدر مفتی) دارالعلوم دیوبند
(۲)دارالعلوم کراچی کا فتویٰ: ’’تراویح میں شرکت کے لیے عورتوں کا مسجد جانا‘‘
سوال: یہاں عورتوں کا خیال ہے کہ رمضان میں مسجد میں جا کر حافظ صاحب کا تراویح میں قرآن سنیں وہاں پردے کا انتظام ہو گا۔
جواب: عورتوں کا مسجد میں جا کر جماعت میں شریک ہونا مکروہ تحریمی ہے اور اس سے کوئی نماز مستثنیٰ نہیں (فرائض کی نماز ہو یا جمعہ و عیدین یا تراویح کی نماز سب میں عورتوں کے لیے شرکت منع ہے) خاص طور سے مردوں کی تلاوت قرآن سننے کا مقصد موجودہ حالات میں زیادہ تر حسن آواز ہوتا ہے جو اور زیادہ موجب فتنہ ہے۔
و کرہ لھن حضور الجماعۃ …… و الفتویٰ الیوم علیٰ الکراھۃ فی کل الصلوٰۃ لظھور الفساد (فتاویٰ عالمگیریہ،ج۱، ص۹۳
                                                                                                (شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی) محمد تقی عثمانی عفی عنہٗ
                                                                                                                                                ۱۱۔۲۔۱۳۹۱ھ
الجواب صحیح
بندہ محمد شفیع عفا اﷲ عنہ (مفتی اعظم پاکستان)
فائدہ:
مرد حضرات مساجد میں بیس رکعت تراویح جماعت کی صورت میں پڑھ کر رمضان کی مبارک راتوں کا ثواب پورا پورا حاصل کریں اور عورتیں اپنی ہمت سے کام لیں اور بیس تراویح اپنے اپنے گھر میں بغیر جماعت کے ادا کریں اور جماعت تراویح کا رواج ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نیکی برباد گناہ لازم یعنی رمضان کی مقدس راتوں میں قرآن بھی پڑھیں اور نماز بھی ادا کریں مگر ثواب کی بجائے گناہ ملے۔ اﷲ تعالیٰ بغض و عناد سے محفوظ رکھے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
……………………………………                                                                               فقط واللّٰہ یقول الحق وھو یھدی السبیل
                                                                                                                                حررہٗ العبد محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
                                                                                                                                                یکم شعبان۱۴۲۸ھ
تصدیق
محقق العصر حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر مفتی جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
الجواب بھذا التفصیل صحیح
                                                                                                                                                احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
                                                                                                                                                جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا


3 comments:

  1. blackmagic-fusion-crack
    is the world’s most advanced visual effects, 3D, virtual reality, and motion graphics solution! Fusion keygen is used to create visual effects and digital composition for films, TV series, and commercials.
    freeprokeys

    ReplyDelete
  2. Thank you, I’ve recently been searching for information about this subject for a long time and yours is the best I have found out so far.Easeus Data Recovery Crack

    ReplyDelete
  3. Windows Login Unlocker crack is a program that assists individuals with further developing their composing abilities. It has been generally welcomed by PC clients who have viewed it as a compelling instrument in further developing exactness and speed.

    ReplyDelete