طلاق کا اختیار کسی دوسرے کے سپردکرنے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارہ میں ایک صاحب بہت
جذباتی ہیں اور معمولی لڑائی میں بھی اپنے گھر والوں کو ایک طلاق یا تین طلاق دے
دے گا اور بعد میں پشیمان ہو گا لہٰذا باہمی مشورہ سے یہ طے پایا ہے کہ وہ اپنا حق
طلاق اپنے والد وغیرہ کو سپرد کر دے کہ کہیں وہ طلاق دے گا بھی تو واقع نہ ہو، شرع
کے حوالہ سے اس کی وضاحت فرمائیں۔
الجواب بعون الوھّاب
اپنا طلاق کا اختیار کسی دوسرے کو سپرد کرنا شرعاً جائز ہے
حضرات فقہاء کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ نے اس کی تین صورتیں لکھی ہیں، نمبر۱: تفویض یعنی اپنے حق
طلاق کا دوسرے کو مالک بنانا، نمبر۲: توکیل یعنی کسی دوسرے کو طلاق دینے کا صرف وکیل بنانا، نمبر۳: ترسیل یعنی بذریعہ خط
یا آدمی پیغام بھیج کر اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دینا۔
و فی الدر المختار (باب تفویض الطلاق): انواعہ ثلاثۃ تفویض
و توکیل و رسالتہ الخ․
قال الشامی تحت قولہ المراد بالتفویض تملیک الطلاق․ (ج۴، ص۵۵۲، طبع امدادیہ ملتان)۔
مذکورہ تینوں صورتوں میں سے تفویض (تملیک) کی صورت جانبین
کے حق میں بہتر ہے، لہٰذا شوہر (اپنے کسی عزیز یا اپنی عورت یا اس کے کسی عزیز کو)
اپنا حق طلاق منتقل کرتے ہوئے یوں کہے ’’میری منکوحہ فلانہ بنت فلاں کو ایک یا دو
طلاق دینے کا مالک بناتا ہوں آپ جب چاہیں جیسے چاہیں اسے طلاق دے سکتے ہیں‘‘ اب
شوہر حق طلاق سونپنے کے بعد اپنا اختیار واپس بھی نہیں لے سکتا اور نہ اس کی طلاق
کی ملکیت ختم کر سکتا ہے اورشوہر کے پاگل ہونے کے ساتھ ملکیت بھی باطل نہ ہو گی ۔
چنانچہ صاحب درمختار توکیل اور تفویض میں فرق بیان کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
و الفرق بینھما فی خمسۃ احکام ففی التملیک لا یرجع و لا
یعزل و لایبطل بجنون الزوج…… بخلاف التوکیل․ (ج۴،ص۵۵۵،۵۵۶)۔
و فی البزازیۃ: لو قال لا جنبی طلاقھا بیدک او طلقھا ان شئت
کقولہ امرھا بیدک یقتصر و لا یملک الرجوع․ (ج۴، ص۲۳۵، بزازیہ علیٰ ھامش الھندیہ) و فی البحر: اذا زاد متی شئت
کان لھا التطلیق فی المجلس و بعدہٗ لان کلمۃ متی عامۃ فی الاوقات․ (ج۳، ص۳۲۸) و فی الدر: لا تطلق بعدہٗ ای المجلس الا اذا زاد علیٰ قولہ
…… متی شئت او متی ما شئت او اذا شئت او اذا ما شئت فلا یتقید بالمجلس و لم یصح
رجوعہ․ (ج۴، ص۵۵۴،۵۵۵) ……………… فقط واللّٰہ اعلم و علمہ اتمّ و احکم
کتبہٗ العبد محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
۲۰؍ربیع الثانی ۱۴۳۶ھ
تصدیق
فقیہِ وقت حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب
مدظلہم
۔(صدر مفتی جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
الجواب صحیح
احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا
ربیع الاوّل ۱۴۳۳ھ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ....
ReplyDeleteحضرت...!
شوہر کسی کو طلاق کا مالک بنا بھی دے تب بھی اس کو طلاق دینے کا اختیار تو رہے گا ناااا..؟
Mufti azam Hashemi ka number mil sakta hai
ReplyDelete