کھانا سامنے
رکھ کر فاتحہ وغیرہ پڑھنے کا شرعی حکم
سوال:
کیا فرماتے ہیں سُنّی علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ بعض سنی حنفی حضرات
کہتے ہیں کہ کھانا ایصالِ ثواب کا ہو یا نئے گھر کا، نئی دُکان کی برکت کے لیے تقسیم
کرنا ہو تو پہلے اپنے سامنے رکھ کر اُس کھانے پر مختلف قرآنی سورتیں و آیات پڑھیں پھر
تقسیم کریں یہ ضروری ہے۔ کیا یہ طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے خلفاء راشدین
یا فقہ حنفی کی کسی معتبر کتاب سے ثابت ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں تاکہ ناواقف سنی
حضرات گمراہ نہ ہوں۔
الجواب
بعون الوھّاب
احادیث
شریفہ سے یہ بات تو ثابت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کھانے کا آغاز
’’
بِسْمِ اللّٰہِ وَ بَرَکَۃِ اللّٰہ‘‘ سے کرتے تھے (مستدرک
حاکم:۴؍۲۰۹، حدیث
نمبر:۱۶۳، باب الاطعمۃ) اسی طرح کھانے کے
متعلق دیگر مسنون اعمال ثابت ہیں، مگر ایصال ثواب وغیرہ کا کھانا سامنے رکھ کر یا مختلف
اشیاء کھانے کی سامنے رکھ کر مختلف سورتیں اور آیات کریمہ پڑھنا آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اﷲ عہم اور چاروں ائمہ مجتھدین
(امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی) رحمہم اﷲ سے قطعاً ثابت
نہیں ہے جیسا کہ علامہ عبدالحئی لکھنؤی حنفی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں (سوال و
جواب بزبان فارسی ملاحظہ ہو)۔
سوال:
فاتحہ مروجہ حال یعنی طعام را رُو برو نہادہ …… چیزے خواندن چہ حکم دارد؟
جواب:
ایں طور مخصوص نہ درزمانِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بود نہ در زمانِ خلفاء بلکہ وجودِ
آن در قرونِ ثلاثہ کہ مشہودلہا بالخیر اند منقول نشرہ۔ (مجموعۃ الفتاویٰ،ص۷۷،حصہ سوم)۔
جبکہ
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی صاحب نے بھی اپنے رسالہ ’’الحُجّۃ الفائحہ‘‘ کے ص۱۶ پر لکھا ہے کہ وقتِ
فاتحہ کھانے کا قاری کے سامنے ہونا بیکار بات ہے۔ یہ مذکور رسالہ فتاویٰ رضویہ جدید
ج۹ ص۶۱۰ پر چھپ
چکا ہے اور حوالہ میں دی گئی عبارت فتاویٰ رضویہ ج۹
ص۶۴۰ پر ہے۔
اور
مکتب ِفکر بریلوی کے مشہور عالم محمد صالح صاحب کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنے کے
بارہ میں لکھتے ہیں: یہ رسم سوائے ہندوستان کے اور کسی اسلامی ملک میں رائج نہیں۔
(تحفۃ الاحباب،ص۱۲۲)۔
اس
رسم کی حقیقت سے نقاب کشائی کرتے ہوئے مؤرّخِ ہند محمد عبیداﷲ نو مسلم (ہندو سے مسلمان
ہوا) لکھتے ہیں: کھانا سامنے رکھ کر ہندو پنڈت اُس پر (منگھڑت کلام) پڑھا کرتے تھے
اسی کو دیکھ کر جاہل مُلّاؤں نے مسلمانوں میں کھانا سامنے رکھ کر اس پر قرآن کریم پڑھنے
کا عمل جا ری کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ’’تحفۃ الہند‘‘ دوسراباب چھٹی فصل ص۹۳،۹۴، طبع میر محمد کتب خانہ کراچی۔
اسی
لیے محققین اہلسنت نے اس رسم کو خلافِ سنت اور بدعت قرار دیا ہے چنانچہ فتاویٰ سمرقندیہ
میں ہے کہ کھانے پر سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص، سورۃ الکافرون وغیرہ کا پڑھنا بدعت ہے،
عبارت یہ ہے:
قرأۃ
الفاتحۃ و الاخلاص و الکافرون علٰی الطعام بدعۃ․
(بحوالہ: الجُنّہ،ص۱۵۵)۔
اسی
طرح محقق حنفی مفتی کفایت اﷲ چشتی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: کھانے کی چیزوں کا یا پکے
ہوئے کھانے کا ثواب میت کو پہنچانا ہے تو کسی مستحق کو دے دیں اس کے لیے کھانا وغیرہ
کو سامنے رکھ کر سورتیں پڑھنا شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہے …… اس لیے رائج شدہ تمام
من گھڑت صورتیں بدعت ہیں۔ (کفایت المفتی، ج۴، ص۱۱۲، قدیم)۔
یہی
وجہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے جب مسلمانوں کو دیکھا کہ بعض کاموں میں وہ ہندوؤں اور
عیسائیوں کی نقالی کر رہے ہیں تو غیرت دینی میں آ کر یوں تبصرہ کیا، ذیل میں ملاحظہ
ہو
وضع میں
تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں
ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
حدیث
شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمارے غیر کے طریقہ کو اپنایا
وہ ہم میں سے نہیں ہے (مسلمانوں میں سے نہیں ہے)۔
قال
علیہ السلام: لیس منّا من عمل بسنّۃ غیرنا․
(کنز العمّال، ج۱، ص۲۱۹،
جدید)۔
حضرت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جس قوم کی مشابہت (نقالی) اختیار کرے
گا وہ (قیامت کے دن) انھیں میں شمار ہو گا۔
قال
علیہ السلام: من تشبّہ بقوم فھو منھم․ (مشکوٰۃ
شریف، ص۳۷۵)۔
حضرت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص میری سنت اور میرے طریقہ کی مخالفت کرے
گا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُسے چاروں طرف سے آگ لگی ہوئی ہو گی۔
قال
علیہ السلام: من خالف سنّتی و سیرتی جاء یوم القیٰمۃ و تاکلہ النّار من کل مکان․ (کنز العمّال،ج۱،ص۱۰۰)۔
لہٰذا
مسنون طریقہ یہ ہے کہ عام برکت وغیرہ کے لیے کھانے کی چیزوں کو رسمی ختم پڑھے بغیر
ہراَمیر و غریب میں تقسیم کر سکتے ہیں، البتہ ایصال ثواب کا کھانا صرف غریبوں کا حق
ہے امیر نہ کھائے۔ (فتاویٰ رحیمیہ) اسی طرح لکھا ہے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی
صاحب نے کہ مردہ کا کھانا صرف فقراء کے لیے ہے عام دعوت کے طور پر جو کرتے ہیں یہ منع
ہے غنی نہ کھائے۔ (احکامِ شریعت،حصہ دوم،ص۱۶)۔
نوٹ:
مروجہ ختم کی تاریخ اور اس کے تردیدی دلائل کیتفصیل کے لیے امام ربانی قطب الارشاد
علامہ رشید احمد حنفی چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کے تلمیذِ رشیدو خلیفہ مجاز حضرت مولانا فتح
الدین رشیدی رحمۃ اﷲ علیہ کا تاریخی رسالہ بنام ’’ختم مرسومۃالھند‘‘ علماء
حضرات ملاحظہ فرمائیں۔
اﷲ
تعالیٰ تمام مسلمانوں کو بدعت سے نفرت اور سنت سے محبت نصیب فرمائے اور ہندوؤں کی نقالی
میں رسمی ختم پڑھنے سے حفاظت فرمائے۔
…………………………………… فقط واللّٰہ
اعلم بالحق وھو یھدی الی الحق
کتبہٗ العبد
محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
۲۵؍ رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ
تصدیق
محقق اہلِ
سنت حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر
دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
اھل
السنۃ و الجماعۃ کے ہاں میت کے لیے ایصال ثواب جائز ہے خلافاً للمعتزلۃ، لیکن
ایصال ثواب سنت طریقہ کے مطابق ہونا چاہیے اس میں رسومات و بدعات نہ کی جائیں کہ اس
طرح میت کو ثواب نہیں پہونچتا۔ فالجواب صحیح
احقر عبدالقدوس
ترمذی غفرلہٗ
۲۹؍رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ
No comments:
Post a Comment