پلازہ میں
وقف مسجد کا شرعی حکم
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ایسے پلازے اور مارکیٹیں جن کے نیچے کا
حصہ ایک منزل یا دو منزل وقف نہیں ہوتا بلکہ اس میں ذاتی رہائش اور دکانیں بنا کر اوپر
کی منزل کو چھت سمیت وقف برائے مسجد کر دیا جاتا ہے اور اس کا راستہ و دیگر ضروریات
بالکل علیحدہ ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں کو مسجد شرعی کا حکم مل جائے گا یا نہیں؟ اور اس
میں مسنون اعتکاف رمضان المبارک کا جائز ہو گا یا نہیں؟ آج کل ہر بڑے شہر میں بڑے بڑے
پلازہ اورمارکیٹوں میں متعدد مساجد بن چکی ہیں۔ وضاحت فرما کر عنداﷲ ماجور ہوں کیونکہ
بعض حضرات نے ضد کر لی ہے کہ یہ مسجد شرعی نہیں ہے اور مسجد بلال پلازہ کی صورت بھی
مذکور تحریر کے مطابق ہے۔
الجواب
بعون الوھّاب
حضرات
فقہاء کرام رحمہم اﷲ نے شرعی قاعدہ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ (کہ امرممنوع
کو ضرورت شرعیہ مباح کر دیتی ہے) کے پیشِ نظر لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضرورت شدیدہ کی وجہ
سے ایسی جگہوں کو شرعاً مسجد قرار دیا ہے۔ لہٰذا بلال پلازہ کی اوپر کی منزل چھت سمیت
بنام مسجد وقف کر دی گئی ہے اور اس کا راستہ الگ سے ہے تو یہ وقف درست ہے اور یہ مسجد
شرعی ہے اس میں رمضان کے عشرہ اخیرہ کا مسنون اعتکاف بھی شرعاً درست ہے۔ ھذا ھو
القول السدید و ینکرہٗ الجاھل العنید
و
فی اعلاء السنن: روی الحسن عن ابی حنیفۃ (رحمہ اللّٰہ تعالٰی) انہ قال اذا جعل السفل
مسجد او علٰی ظھرہ مسکن فھو مسجد لان السفل مما یتأبد دون العلوو عن محمد علٰی عکس
ھذا لان المسجد معظم و اذا کان فوقہ مسکن او مستفل یتعذر تعظیمہ و عن ابی یوسف انہ
جوز الوجھین حین قدم بغداد و راٰی ضیق المنازل فکانہ اعتبر الضرورۃ و کذا عن محمد لما
دخل ’’الری‘‘ و ھذا تعلیل صحیح لانہ تعلیل بالضرورۃ کذا فی فتح القدیر۔ (ج۱۳، ص۲۱۳،
تحت حکم مسجد تحتہ سرداب او فوقہ بیت)۔
اسی
طرح کا سوال و جواب ’’کتاب الفتاویٰ، ج۴، ص۲۲۲، وقف‘‘ پر محقق العصر مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
(انڈیا) سے بھی منقول ہے۔ …………………………………………………………… فقط واللّٰہ اعلم بالصواب
و عندہٗ اُمّ الکتاب
کتبہٗ العبد
محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
۸؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۵ھ
تصدیق
محقق العصر
حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر
مفتی جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
الجواب
صحیح
احقر عبدالقدوس
ترمذی غفرلہٗ
جامعہ حقانیہ
ساہیوال سرگودھا
۱۳؍۶؍۱۴۳۷ھ
No comments:
Post a Comment