نھایۃ
الکلام فی ترك القرأۃ خلف الامام
المعروف
بہ
’’امام
کے پیچھے قرأت (فاتحہ وغیرہ) نہ کرنے کے بارہ میں آخری فیصلہ‘‘
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارہ میں کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ فاتحہ
وغیرہ کی قرأت کرنا شرعاً کیسا ہے؟ تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔
الجواب
بعون الوھاب
تحقیقی
جواب سے پہلے چند تمہیدی باتیں ملاحظہ ہوں:۔
(۱)……سورۃ فاتحہ قرآن کریم ہی کی ایک
عظیم سورۃ ہے جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حدیث ہے کہ:
ھِیَ
اَعْظَمُ سُوْرَۃٍ مِّنَ الْقُرْاٰن․
(کتاب التفسیر ج۲،ص۲۴۶)۔
سورۃ
فاتحہ عظمت کے لحاظ سے قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ ہے۔ اور نماز میں قرأت سورۃ
فاتحہ ہی سے شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم قرأت
کا آغاز الحمد
للّٰہ رب العٰلمین سے ہی کرتے تھے۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
انس قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ابوبکر و عمر عثمان یفتتحون
القرأۃ بالحمد للّٰہ رب العٰلمین․ (جامع ترمذی، ج۱،ص۵۷، ابو
داؤد شریف ج۱،ص۱۱۴،
نسائی شریف ج۱،ص۱۰۴،
مشکوٰۃ شریف، ص۵۷)۔
لہٰذا
وہ احباب جو سورۃ فاتحہ کو قرأت نہیں سمجھتے وہ واضح طور پر غلطی پر ہیں۔
(۲)……جن احادیث صحیحہ میں مقتدی کو امام
کے پیچھے قرأت کرنے سے منع کیا گیا ہے وہاں سورۃ فاتحہ سمیت قرآن کی تمام سورتیں
مراد ہیں یعنی مقتدی کو امام کے پیچھے کسی نماز میں بھی نہ فاتحہ پڑھنا درست ہے
اور نہ اس کے علاوہ کوئی اور سورۃ۔ صرف ثناء پڑھ کر بس خاموشی واجب ہے۔
(۳)……حضرت امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے
اپنی صحیح بخاری شریف میں ایک جامع اور عمدہ اصول بیان فرمایا ہے:
اِنَّمَا
یُؤْخَذُ بِالْاٰخِرِ فَالْاٰخِرِ مِنْ فِعْلِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ
علیہ وسلم ․
کہ
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فعل آخری ہو اُس کو لینا چاہئے پھر جو اُس
سے آخری ہو۔ (باب انما جعل الامام لیؤتم بہ، حدیث ۶۸۹،
ج۱،ص۳۰۶،
مترجم وحید الزمان اہلحدیث)۔
نیز
عام طور پر حضرات محدّثین رحمہم اﷲ کا اصول یہ ہے کہ جو عمل حضرت نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے پہلے کیا اسے پہلے ذکر کرتے ہیں اور جو عمل آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے بعد میں کیا اسے بعد میں ذکر کرتے ہیں، پہلے عمل کو منسوخ (ختم ہو چکا)
اور بعد والے کو ناسخ (پہلے عمل کی جگہ جاری ہونے والا) کہتے ہیں جیسا کہ شرح نووی
علی المسلم میں ہے:
قال
النووی تحت باب الوضوء مما مسّت النار ذکر مسلم رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فی ھذا لباب
الاحادیث الواردۃ بالوضوء مما مسّت النار ثم عقبھا بالاحادیث الواردۃ بترك الوضوء
مما مسّت النار فکانہ یشیر الی ان الوضوء منسوخ وھذہ عادۃ مسلم وغیرہ من ائمۃ
الحدیث یذکرون الاحادیث التی یروونھا منسوخۃ ثم یعقبونھا بالناسخ۔ (ج۱، ص۱۷۶،
طبع قدیمی کراچی)۔
امام
بخاری اور امام نووی کے اصول کے مطابق ہم نے صرف چند کتب احادیث سے تحقیق کی تو
بحمدللّٰہ ہمیں حضرات محدثین رحمۃ اﷲ علیہم کی ترتیب سے واضح ہو گیا کہ دورِ
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا عمل امام کے پیچھے مقتدی کے قرأت کرنے کا تھا اور
آخری عمل امام کے پیچھے ترکِ قرأت و منع کا تھا۔
برائے
نمونہ چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
(۱)……جامع ترمذی شریف میں پہلے باب
ماجاء فی القرأۃ خلف الامام ج۱، ص۱۷۶ پر ہے اس کے دو صفحہ بعد باب
ما جاء فی ترك القرأۃ خلف الامام ج۱،ص۱۷۸ پر ہے۔
(۲)……سنن ابو داؤد میں بھی پہلے، امام کے
پیچھے قرأت کرنے کا باب ہے پھر امام ابو داؤد نے تین باب ترک قرأت کے ذکر کئے: (۱) باب من ترك القرأۃ فی صلوٰتہ (۲)باب من کرہ القرأۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جہر
الامام (۳) باب من رٰای القرأۃ اذا لم یجہر ج۱،ص۲۷؍۱۲۶۔
(۳)……سنن نسائی شریف میں بھی پہلے قرأت
کرنے کا باب ہے ۔ج۱،ص۱۴۵۔ پھر
امام نسائی رحمۃ اﷲ علیہ نے تین باب ترک قرأت کے ذکر کئے ہیں: (۱) باب ترك القرأۃ خلف الامام فیمالم یجہرفیہ
(۲) باب اکتفاء الماموم بقرأۃ الامام (۳) باب انما جعل الامام لیؤتم بہ……․ (ج۱،ص۱۴۶)۔
(۴)……سنن ابن ماجہ شریف میں بھی پہلے
قرأت کرنے کا باب ہے مثلاً باب القرأۃ خلف الامام ص۶۰ پر ہے پھر ترک قرأت (یعنی امام کے پیچھے
خاموش رہنے) کا باب ہے، باب اذاقرء الامام فانصتوا (ص۶۱) پر ہے۔
نوٹ:مذکور
تحقیق سے اتنی بات واضح ہو گئی کہ محدث امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے اصول پر صرف وہ
لوگ قائم ہیں جو امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے۔
اصل
جواب ملاحظہ ہو:
امام
کے پیچھے قرأت کرنے کے بارہ میں تین دَور ہیں:
﴿دورِ
اوّل﴾
حضرات
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم امام کے پیچھے ہر سرّی (ظہر و عصر) وجہری (مغرب، عشاء ،
فجر)نماز میں قرأت کیا کرتے تھے، ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام قرأت سے منع کر
دیا اور خاص سورۃ فاتحہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ بطور دلیل حضرت عبادہ بن صامت رضی
اﷲ عنہ کی مختصر روایت صحیح بخاری ج۱،ص۱۰۴ پر اور مفصل روایت ذیل میں ہے۔
حضرت
عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ فجر کی نماز میں نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے جب آپ نے قرأت کی تو قرأت میں آپ کو پریشانی ہوئی۔ جب
آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا: ’’شاید تم لوگ امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو
ہم نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول! جی ہاں بہت تیزی کے ساتھ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا (عام) قرأت نہ کیا کرو مگر سورۃ فاتحہ کی قرأت کر لیا کرو اس لئے کہ جو
سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر
فقرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القرأۃ فلما فرغ قال العلکم
تقرؤون خلف امامکم قلنا نعم ھذا یا رسول اللّٰہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب
فانہ لاصلوٰۃ لمن لم یقرأبہا․ (ابو
داؤد ج۱،ص۱۲۲)۔
﴿دورِ
ثانی﴾
حضرت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جہری نماز کے موقع پر قرأت کی گئی جس پر آپ
نے ناگواری کا اظہار فرمایا تو جہری نماز میں آئندہ کے لئے لوگ قرأت سے بالکل رک
گئے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم
ایک ایسی نماز سے فارغ ہوئے جس میں آپ نے اونچی قرأت کی تھی پھر فرمایا کیا تم میں
سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرأت کی ہے تو ایک شخص نے عرض کیا جی ہاں میں نے کی ہے
اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں
دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ میرے ساتھ قرآن کی تلاوت میں جھگڑا کیا جا رہا ہے
چنانچہ آپ کے اس ارشاد کو سننے کے بعد تمام لوگ جہری نمازوں (مغرب، عشاء ، فجر)
میں قرأت کرنے سے رُک گئے (حدیث یہ ہے)۔
عن
ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انصرف من صلوٰۃ جہر فیہا بالقرأۃ
فقال ھل قرأ معی منکم اَحدٌ اٰنفاً فقال رجل نعم انا یا رسول اللّٰہ قال فقال رسول
اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انی اقول مالی انازع القرآن فانتہی الناس عن القرأۃ
فیما جہر فیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین سمعوا ذلك من رسول اللّٰہ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ․
((مؤطا امام مالك ص۶۹،
جامع ترمذی ج۱،ص۷۱، ابو
داؤد ج۱،ص۱۲۰،
نسائی ج۱،ص۱۰۶)۔
فائدہ:
اس حدیث شریف میں سورۃ فاتحہ کا کوئی استثناء نہیں ہے لہٰذا جہری نمازوں میں تمام
لوگ مکمل قرأت یعنی فاتحہ وغیر فاتحہ سب کے پڑھنے سے باز آگئے۔ اس کی تائید مزید
ملاحظہ ہو۔
حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے نماز میں قرأت کی تو آپ کے پیچھے حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بھی
قرأت کی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اُنہوں نے قرأت کو خلط ملط کر دیا۔ اس موقع
پر یہ آیت نازل ہوئی (جب قرآن پڑھا جائے پس تم اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو)
یہ آیت فرض نمازوں کے بارہ میں ہے پھر حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ہم
لوگ امام کی قرأت توجہ سے نہ سنیں تو ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
عبداللّٰہ بن عباس ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ فی الصلوٰۃ اصحابہ
ورادہ، فخلطوا علیہ فنزل (واذا قریٔ القرآن فاستمعوالہ……) فہٰذہٖ فی المکتوبۃ
ثم قال ابن عباس و ان کنالا نستمع لمن یقرأ انا اذًا لاجفیٰ من الحمیر․ (کتاب القرأۃ للبیہقی ص۱۹۷، طبع ا دارہ احیاء السنہ گوجرانوالہ)۔
فائدہ:
اونچی قرأت والی نمازوں (مغرب، عشاء ، فجر) میں سورۃ فاتحہ سے ہی امام صاحب اونچا
پڑھتا ہے اس لئے مقتدیوں پر فاتحہ سمیت مکمل قرأت کو توجہ سے سننا شرعاً واجب ہے
چونکہ توجہ سے قرآن کو سننے کے لئے ہر قسم کی قرأت سے خاموشی ضروری ہے وگرنہ وہ
شخص جو امام کے پیچھے قرأت کرتا ہے وہ گدھے سے بھی بدتر ہے۔
﴿دورِ
ثالث﴾
آہستہ
قرأت والی نمازوں (ظہرو عصر) میں بھی امام کے پیچھے مقتدی کو قرأت کرنا منع ہے۔
چنانچہ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے پیچھے ایک شخص نے ظہر یا عصر کی نماز میں قرأت کی تو ایک صاحب نے اشارہ سے
قرأت کرنے سے روکا وہ نہ رکا اور نماز سے فراغت کے بعد منع کرنے والے سے وہ شخص
کہنے لگا کہ کیا آپ مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قرأت کرنے سے منع کرتے
ہیں وہ دونوں یہ گفتگو کر رہے تھے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی
گفتگو کو سن لیا اور ارشاد فرمایا اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام
کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہے۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
جابر بن عبداللّٰہ ان رجلاً صلی خلف النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الظہر او العصر
یعنی قرأ فاومیٰ الیہ رجل فنہاہ فابیٰ فلما انصرف قال اتنہانی ان اقرأ خلف النبی صلی
اللّٰہ علیہ وسلم فتذاکراحتی سمع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم من صلی خلف امام فان قرأۃ الامام لہ قرأۃ․ (کتاب القرأۃ للبیہقی ص۱۰۲ و سنن کبریٰ للبیہقی ج۲،ص۱۵۹،
تفسیر روح المعانی ج۹،ص۱۳۴، مؤطا امام محمد ص۹۸،
مصنف عبدالرزاق ج۲،ص۱۳۶)۔
اسی
کے قریب صحیح مسلم شریف میں ہے، حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز شروع فرمائی تو ایک صاحب نے سورۃ الاعلیٰ ’’
سَبِّحِ اسم ربك الاعلیٰ‘‘ پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا
تم میں سے کس نے قرأت کی یا فرمایا تم میں سے قرأت کرنے والا کون ہے تو ایک صاحب
نے عرض کیا میں نے قرأت کی ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی گمان
کر رہا تھا کہ تم میں سے کوئی قرأت میں مجھے الجھا رہا ہے۔ (ج۱،ص۲۷۱، حدیث
نمبر۸۹۳)۔
نوٹ:
یہ حدیث شریف اوپر کی حدیث سے اگرچہ مختصر ہے مگر جماعت اہلحدیث کے امام علامہ ابن
تیمیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مقتدی پر امام کے پیچھے نہ
فاتحہ واجب ہے اور نہ کوئی دوسری سورۃ، دیکھئے فتاویٰ ابن تیمیہ میں ہے:
فہذا
یدل علیٰ انہ لا تجب القرأۃ علی الماموم فی السرلابالفاتحۃ ولا غیرہا․ (ج۱۱،ص۱۸۰، جدید طبع قاھرہ)۔
اب
ذیل میں دورِ ثالث کے تائیدی دلائل پیش کیے جائیں گے جن میں مقتدی کو تمام نمازوں
میں امام کے پیچھے قرأت فاتحہ وغیرہ کا شرعاً حق حاصل نہیں ہے۔
(۱)قرآنِ کریم سے دلیل
ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
وَ
اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ
تُرْحَمُوْنَ․ (سورۃ الاعراف:۲۰۴)۔
’’اور جب
قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رکھو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا
جائے‘‘۔
آیت
کا شانِ نزول: اکثر اہل علم کے نزدیک یہ آیت نماز میں امام کے پیچھے قرأت سے منع
کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے یعنی امام جب قرأت کرے تو مقتدی اس کی قرأت کی طرف کان
لگائے رکھیں اور خاموش رہیں۔
(۱)مشہور مفسر علامہ
قرطبی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
ان
ھذا نزل فی الصلوٰۃ روی عن ابن مسعود و ابی ھریرۃ و جابر و الزھری و عبیداللّٰہ بن
عمیر و عطاء بن ابی رباح و سعید بن المسیب․ (تفسیر قرطبی،ج۷،ص۳۵۳)۔
یعنی
بے شک یہ حکم نماز کے بارے میں نازل ہوا ہے متعدد صحابہ اور تابعین مثلاً حضرت ابن
مسعود، حضرت ابو ہریرہ، حضرت جابر رضی اﷲ عنہم اور امام زہری، امام عبیداﷲ بن
عمیر، امام عطاء اور امام سعید بن المسیب رحمہم اﷲ تعالیٰ سے اسی طرح منقول ہے۔
(۲)حافظ ابن کثیر
رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
قال
علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس فی الآیۃ قولہ وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ
فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا یعنی فی الصلوٰۃ المفروضۃ و کذا روی عن
عبداللّٰہ بن المغفل․
(تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۲۶۱،قدیمی
کراچی)۔
یعنی
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے شاگرد علی بن ابی طلحہ ان سے
روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد فرض نماز کے بارہ میں ہے حضرت
عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔
آگے
عبید بن عمیر ٗعطاء بن ابی رباح اور امام مجاھد سے اس آیت کا نماز سے متعلق ہونا
نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’وکذا رواہ غیر واحد عن مجاھد‘‘ کہ
امام مجاھد کے متعدد شاگردوں نے ان سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں:
و
کذا قال سعید بن جبیر و الضحاك و ابراھیم نخعی و قتادہ و الشعبی و السدی و
عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ان المراد بذٰلك فی الصلوٰۃ․
(تفسیر ابن کثیر،ج۳، ص۲۶۲)۔
اور
سعید بن جبیر، ضحاک، ابراھیم نخعی، قتادہ، شعبی، سدی اور عبدالرحمن بن زید نے بھی
اسی طرح کہا ہے کہ اس آیت سے نماز میں استماع و انصات مراد ہے۔
المختصر
جب یہ بات طے ہے کہ یہ آیت نماز کے بارہ میں نازل ہوئی ہے تو محقق ابن ہمام ’’فتح
القدیر‘‘
اور علامہ ابن نجیم ’’البحر الرائق‘‘ میں اس آیت سے
تمام نمازوں میں منع قرأت خلف الامام پر استدلال کرتے ہیں:’’ آیت کے ساتھ استدلال
کا خلاصہ یہ ہے کہ قرأت قرآن کے وقت دو امر مطلوب ہیں ایک استماع یعنی کان لگانا
اور دوسرا انصات یعنی خاموش رہنا پس دونوں پر عمل کیا جائے گا، استماع تو جہری
نمازوں کے ساتھ خاص ہے اور انصات جہری نمازوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مطلق خاموش
رہنے کا نام ہے لہٰذا اسے اپنے اطلاق پر رکھتے ہوئے مطلق قرأت کے وقت خاموش رہنا
واجب ہے اور یہ استدلال اس بنا پر ہے کہ آیت کا نزول نماز کے بارہ میں ہے جیسا کہ
امام بیھقی نے امام احمد سے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (عبارت یہ ہے)۔
حاصل
الاستدلال بالایۃ ان المطلوب امر ان الاستماع و السکوت فیعمل بکل منھما و الاول
یخص الجھریۃ و الثانی لا فیجری علی اطلاقہ فیجب السکوت عند القرأۃ مطلقا و ھذا
بناء علی ان ورود الآیۃ فی الصلوٰۃ و اخرج البیھقی عن الامام احمد قال اجمع الناس
علی ان ھذہ الآیۃ نزلت فی الصلوٰۃ․ (فتح
القدیر،ج۱، ص۲۴۔
البحر الرائق،ج۱،ص۳۴۳)۔
مطلب
یہ ہے کہ حکمِ انصات کی بنا پر سری اور جہری تمام نمازوں میں امام کے پیچھے خاموش
رہنا واجب ہے اور حکمِ استماع کی بنا پر جہری نمازوں میں امام کی قرأت کی طرف کان
لگانا الگ واجب ہے اگر کوئی شخص امام کے پیچھے قرأت کرے گا تو جہری نمازوں میں
استماع اور انصات دونوں کا تارک ہو گا اور سرّی نمازوں میں صرف انصات کا تارک ہو
گا۔ جیسا کہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
الانصات
لا یخص بالجھریۃ لانہ عدم الکلام․ (فتح
القدیر،ج۱،ص۲۴۱)۔
اور
انصات جہری نمازوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ سرّی اور جہری دونوں کو شامل ہے کیونکہ
اس کے معنیٰ ہیں کلام کا نہ کرنا۔
(۳)مشہور محقق و مفسر
علامہ ابوبکر جصّاص رازی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں آیت کریمہ ’’واذا
قریٔ القراٰن فاستمعوا لہ……‘‘ کے تحت تمام علماء کرام کے اتفاق سے
معلوم ہو چکا ہے کہ اس آیت کی مراد امام کے پیچھے قرأت نہ کرنا اور اس کی قرأت کی
طرف مکمل توجہ کرنا اور خاموش رہنا ہے۔ …… پھر یہ آیت جہری نمازوں (مغرب، عشاء،
فجر) کی طرح سرّی نمازوں (ظہر، عصر) میں بھی امام کے پیچھے قرأت کرنے سے مانع ہے
کیونکہ آیت میں جہرو سر کی قید کے بغیر محض قرأت قرآن کے وقت توجہ سے سننا اور
خاموش رہنا ہم پر واجب ہے۔ کیونکہ ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ ہمارا امام اس
وقت (یعنی سرّی نمازوں میں بھی) قرأت کر رہا ہے۔
وفی
احکام القرآن: فقد حصل من اتفاق الجمیع انہ قد ارید ترك القرأۃ خلف الامام والا
ستماع والا نصات لقرأتہ …… وکما دلت الاٰیۃ علیٰ النہی عن القرأۃ خلف الامام فیما
یجہر بہ فہی دلالۃ علی النہی فیما یخفیٰ لانہ اوجب الاستماع والا نصات عند قرأۃ
القرآن ولم یشترط فیہ حال الجہر من الاخفاء فاذا جہر فعلینا الاستماع والا نصات
واذا اخفیٰ فعلینا الاستماع والا نصات بحکم اللفظ لعلمنا بہ قاریٔ للقرآن․ (ج۳،ص۴۹ سورۃ
اعراف، طبع مصر)
(۲)احادیث شریفہ سے دلائل
(۱)……حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور سنت
کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم دی اور ہمیں نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا اور فرمایا
جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفوں کو درست کرو پھر تم میں سے ایک شخص امام بنے اور وہ
امام جب تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو …… اور جب وہ امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔
(حدیث یہ ہے)۔
قال
ابو موسیٰ: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطبنا فبین لنا سنتنا وعلمنا
صلوٰتنا فقال اذا صلیتم فاقیموا اصفوفکم ثم لیؤمکم احدکم فاذا کبر فکبروا …… واذا
قرأ فانصتوا․ (صحیح مسلم ج۱،ص۱۷۴، باب
التشہد، صحیح ابو عوانہ ج۲،ص۱۲۳)۔
معمولی
لفظی اختلاف کے ساتھ اسی طرح کی صحیح حدیث سنن نسائی شریف ج۱،ص۱۰۷، سنن ابن ماجہ ص۶۱،
کتاب القرأۃ للبیہقی ص۱۳۵ (طبع ادارہ احیاء
السنہ گوجرانوالہ) میں بھی ہے۔
(۲)……حضرت جابر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے
ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص امام کے پیچھے نماز
پڑھے تو اُس کے امام کی قرأت اُس کی قرأت ہے۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
ابی الزبیر عن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من کان لہ امام
فقرأتہ لہ قرأۃ․ (مسند احمد ج۳،ص۳۳۹،
وقال ابن قدامۃ ھذا اسناد صحیح متصل رجالہ کلہم ثقات (شرح المقنع للکبیر علی
ھامش المغنی ج۲،ص۱۱، طبع
بیروت ھٰذَا سَنَدٌ صَحِیْحٌ (الجوھر النقی علی البیہقی ج۲،ص۱۵۹، باب من قال لایقرأخلف الامام
علی الاطلاق)۔
(۳)……حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یقینا امام اسی لئے
بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداء (پیروی) کی جائے پس جب امام تکبیر کہے تو تم بھی
تکبیر کہو اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال انما الامام لیؤتم بہ فاذا
اکبر فکبروا واذا قرء فانصتوا……․ (مسند احمد ج۲،ص۱۷۶، بیروت طبع اول ۱۹۶۹ء
وقال المحقق احمد شاکر، اسنادہ صحیح)۔
فائدہ:
حدیث نمبر(۱) حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حدیث نمبر(۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہما کو امام اہل
حدیث حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے، دیکھئے محدّث
ابو عمر یوسف بن عمر (المعروف بہ ابن عبدالبر، متوفی ۳۶۴ھ)
فرماتے ہیں:
فقد
صح احمد الحدیثین جمیعاً عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیث ابی ھریرۃ وحدیث ابی
موسیٰ، قولہ علیہ السلام اذا قراء الامام فانصتوا․ (التمہید لما فی الموطا من المعانی
والاسانید ج۱۱،ص۳۴، طبع
۱۴۰۶ھ)۔
لہٰذا
حدیث ابو ہریرہ و ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہما سے ثابت ہو اکہ مقتدی کو امام کے
پیچھے کسی نماز میں بھی قرأت کرنا درست نہیں ہے چنانچہ ہماری تائید جماعت اہلحدیث
کے پیشوا علامہ نواب صدیق حسن خان بھی کر رہے ہیں (فارسی عبارت ہے):
در
حدیث ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ وحدیث ابو موسیٰ است، واذا قرء فانصتوا پس حظ
مؤتم انصات واستماع قرأت امام است و انصات خاص بجھر یہ نیست بلکہ شامل سرّیہ ہم
است پس واجب سکوت باشد مطلقاً نزد قرأت۔ (ھدایۃ السائل ص۱۹۳)۔
حضرت
ابو ہریرہ اور حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ عنہما کی حدیث میں موجود ہے۔ جب امام قرأت
کرے تو تم خاموش رہو، لہٰذا معلوم ہوا کہ مقتدی کا حصہ خاموش رہنا اور امام کی
قرأت کی طرف کان لگانا ہے اور یہ خاموش رہنا جہری نمازوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
بلکہ یہ سرّی نمازوں کو بھی شامل ہے تو امام کی قرأت کے وقت سرّی (ظہر و عصر)
وجہری (فجر، مغرب، عشاء) تمام نمازوں میں خاموش رہنا مقتدی کے لئے واجب ہے۔
(۴)……صحیح ابن ماجہ شریف میں ہے (بروایت
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما) کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ صبح کی نماز
پڑھا رہے تھے اچانک حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ رضی اﷲ عنہ پیچھے ہٹ
گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم امام بن گئے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے
ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ سے قرأت شروع کی جہاں
ابوبکر پہنچ چکے تھے۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
ابن عباس… واخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من القرأۃ من حیث کان بلغ ابوبکر․ (ابن ماجہ ص۸۷) (قال
الحافظ ابن عبدالبر فھذا حدیث صحیح عن ابن عباس۔ التمھید،ج۲۲،ص۳۲۲)۔
یعنی
حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی قرأت فاتحہ وغیرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹایا
نہیں تو اس حدیث شریف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی طور پر بھی ثابت کر دیا
کہ امام کی قرأت فاتحہ وغیرہ مقتدی کے لئے کافی ہے اگر کافی نہ ہوتی تو حضور صلی
اللہ علیہ وسلم گزشتہ پڑھا گیا حصہ لازمی دہراتے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج۱۲،ص۱۶۳، جدید
طبع قاہرہ)۔
(۵)……حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما
روایت کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا: آپ
کو دو ٗنوروں کی بشارت ہو جو صرف آپ کو ہی عطا ہوئے ہیں آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا
نہیں ہوئے۔ (۱) سورۃ فاتحہ (۲) سورۃ
البقرہ کی آخری دو آیتیں۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
ابن عباس …… اَبشِر بنورین اوتیتہما لم یوتہما نبی قبلك فاتحۃ الکتاب وخواتیم سورۃ
البقرۃ․
(صحیح مسلم
ج۱،ص۲۹۱،
نسائی شریف ج۱،ص۱۰۶)۔
اس
حدیث سے معلوم ہوا کہ فاتحہ صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی ہے کسی
اور نبی کو عطا نہیں ہوئی چنانچہ معراج کی شب تمام انبیاء علیہم السلام نے ہمارے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں خاموشی سے نماز پڑھی کیونکہ وہ فاتحہ سے
بالکل نا آشنا تھے اب سوال یہ ہے کہ اُن کی نماز فاتحہ کے بغیر ہو گئی یا نہیں اگر
فاتحہ چھوٹ جانے کی وجہ سے اُن انبیاء کرام کی نماز نہیں ہوئی تو ہمارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم امام الانبیاء بھی نہیں ثابت ہونگے (نعوذباللّٰہ) اگر بغیر فاتحہ
پڑھے اُن کی نماز ہو گئی اور یقینا ہو گئی تھی تو معلوم ہو اکہ فاتحہ مقتدی پر الگ
سے واجب نہیں ہے بلکہ امام کی فاتحہ مقتدی کے لئے کافی ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم واقعی امام الانبیاء ہیں۔ (معارف القرآن للکاندھلوی، ج۳، ص۲۸۴، پ۹ بتغیر)۔
ایک
صاحبِ خیر نے اسے نظم میں یوں بیان کیا ہے
فاتحہ
ہے خاص انعام امتِ خیر الوریٰ
پیش کر
معراج کی شب کا جوازِ اقتداء
(۶)……صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوبکرہ
رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو حضرت
ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ ایسی حالت میں پہنچے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں
جا چکے تھے تو ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ نے نمازیوں کی صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر
لیا چنانچہ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر دی گئی( کہ ابوبکرہ رضی اﷲ
عنہ دوڑ کر آئے رکوع میں ملنے کے لئے مگر جب محسوس کیا کہ میں رکوع سے رہ نہ جاؤں
تو صف سے کچھ پیچھے ہی رکوع کر لیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ
تیری حرص میں اضافہ فرمائے آئندہ ایسا نہ کرنا یعنی دوڑ کر نہ آنا اطمینان کے ساتھ
آنا اور صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرنا اچھا نہیں۔ (حدیث یہ ہے)۔
عن
ابی بکرۃ رضی اللّٰہ عنہ انہ انتہیٰ الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھو راکع فرکع
قبل ان یصل الی الصف فذکر ذٰلك للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال زادك اللّٰہ حرصاً
ولا تعد․ (ج۱،ص۱۰۸، باب اذارکع دون الصف)۔
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ کی نماز کو درست قرار دینا واضح کرتا ہے
کہ فاتحہ مقتدی پر الگ سے واجب نہیں امام کی فاتحہ کافی ہے۔ اس حدیث کی مزید وضاحت
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا جب تم نماز کی طرف آؤ اور ہم سجدہ کی حالت میں ہوں تو تم سجدہ کرو
اور اُسے کچھ بھی شمار نہ کرو (یعنی رکعت شمار نہ کرو) اور جو شخص رکوع میں مل
جائے تو اُس نے یقینا نماز کو پا لیا (یعنی رکعت کو پالیا) حدیث یہ ہے:
قال
علیہ السلام اذا جئتم الی الصلوٰۃ و نحن سجود فاسجدوا و لا تعدّوھا شیئًا و من ادرك
الرکعۃ فقد ادرك الصلوٰۃ․ (صحیح ابو داؤد،ج۱،ص۱۲۹)۔
شریعت
کا اصول یہ ہے کہ جب تم وضو کر کے مسجد میں آؤ تو امام کو جس حالت میں پاؤ شریک ہو
جاؤ لیکن رکعت شمار نہ کرنا۔ البتہ اگر تم حالت قیام یا حالت رکوع میں مل جاؤ تو
رکعت شمار کر لو جس کی زیادہ وضاحت صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ
کی روایت سے ہو رہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص امام کی
کمر (پشت) سیدھی ہونے سے پہلے اس کے ساتھ رکوع میں مل جائے تو اس کی وہ رکعت شمار
ہو جائے گی۔ حدیث یہ ہے:
قال
علیہ السلام من ادرك رکعۃ من الصلوٰۃ فقد ادرکہا قبل ان یقیم الامام صلبہ۔ (ج۱،ص۴۵۔
دارقطنی ج۱، ص۳۴۷،
باب من ادرك الامام قبل اقامۃ صلبہ فقد ادرك الصلوٰۃ، و صحیح مسلم، حدیث نمبر
۶۰۷، و سنن کبریٰ للبیہقی ج۲،ص۹۰)۔
نیز
جماعت اہلحدیث کے مشہور فتاویٰ ستاریہ ج۱،ص۵۳ تا ۵۸
کا خلاصہ یہ ہے کہ رکوع میں ملنے والا رکعت کو پا لیتا ہے اور امام ترمذی کے حوالہ
سے تمام اہل علم کا اس مسئلہ پر اتفاق بھی نقل کیا ہے اور دلائل ذکر کرنے کے ساتھ
اہلحدیث حضرات کو دعوت فکر بھی دی ہے۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے خوب کہا
اپنے
من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
اگر تو
میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
نیز
مفتی اعظم سعودیہ شیخ عبدالعزیز بن عبداﷲ بن عبدالرحمٰن بن باز رحمۃ اﷲ علیہ
فرماتے ہیں صحیح بات وہی ہے جس پر جمہور اہل علم کا اتفاق ہے کہ جب کسی نے امام کو
رکوع میں پا لیا تو اُس نے وہ رکعت پا لی اور اُس سے فاتحہ کا پڑھنا ختم ہو جائے
گا …… حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ کی صحیح بخاری والی روایت کی وجہ سے …… کیونکہ حضرت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صف کے علاوہ رکوع کرنے پر تنبیہ تو فرمائی لیکن اُس
رکعت کو قضاء کرنے کا حکم نہیں دیا تو معلوم ہوا امام کے پیچھے مقتدی کی نماز بغیر
فاتحہ پڑھے شرعاً درست ہے۔ (عبارت یہ ہے)۔
والصواب
الذی علیہ جمہور اھل العلم انہ متی ادرك الرکوع فقد ادرك الرکعۃ وتسقط عنہ قرأۃ
الفاتحۃ …… لحدیث ابی بکرۃ …… فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم زادك اللّٰہ حرصاً
ولا تعدولم یامرہ بقضاء الرکعۃ․
(مجموع فتاویٰ، ج۱۱، ص۲۴۶،
بتغیر، طبع جدید ۱۴۲۱ھ الریاض)۔
ایضاً:
و ھذا القول ارجح عندی لحدیث ابی بکرۃ الذی فی البخاری فان النبی صلی اللّٰہ علیہ
وسلم لم یامرہ بقضاء الرکعۃ ولوکان ذلك واجباً علیہ لامرہ بہ …… وقولہ فی الحدیث
زادك اللّٰہ حرصاً ولاتعد یعنی لا تعد الی الرکوع دون الصف․ (ج۱۲،ص۱۶۰)۔
نوٹ:
جماعت اہلحدیث کے بعض حضرات اب بھی امام کے ساتھ بغیر فاتحہ پڑھے رکوع میں مل
جائیں تو رکعت شمار نہیں کرتے بلکہ وہ رکعت قضاء کرتے ہیں تو یہ لوگ واضح احادیث
کی مخالفت کرنے کے باوجود کیسے اہلحدیث رہ گئے؟ یاللعجب ولضیعۃ الادب اور جمہور
اہل علم و مفتی اعظم مکہ مکرمہ جو کہ سلف صالحین ہیں ان کی بھی مخالفت کر کے سلفی
کیسے رہ گئے؟
فسوف
تریٰ اذا انکشف الغبارٗ ۔افرس
تحت رجلك ام حمارٗ
(۳)آثارِ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے دلائل
(۱)……سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں
کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں امام کے پیچھے قرأت نہ
کروں۔ عبارت یہ ہے:
قال
بلال امرنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان لا اقرأ خلف الامام․ (کتاب القرأۃ للبیہقی ص۱۷۵)۔
(۲)…… حضرت موسیٰ بن
عقبہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت
ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرماتے
تھے۔ عبارت یہ ہے:
عن
موسیٰ بن عقبۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ابوبکر و عمر و عثمان کانوا
ینھون عن القرأۃ خلف الامام․ (مصنف عبدالرزاق،
ج۲، ص۱۳۹)۔
(۳)……حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے
سوال کیا گیا امام کے پیچھے قرأت کرنے کا، آپ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی
شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اس کے لئے کافی ہے اور جب اکیلے نماز
پڑھے تو ضرور قرأت کرے اور خود حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما امام کے پیچھے قرأت
نہیں کرتے تھے۔ (عبارت یہ ہے)۔
ان
عبداللّٰہ بن عمر کان اذا سُئل ھل یقرأاحد خلف الامام قال اذا صلی احدکم خلف
الامام فحسبہ قرأۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرأ قال وکان عبداللّٰہ ابن عمر لا
یقرء خلف الامام․
(مؤطا امام مالك، ص۶۸)۔
(۴)……حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما
امام کے پیچھے کسی سرّی (ظہر و عصر) اور جہری نماز (مغرب، عشاء ، فجر) میں قرأت
نہیں کرتے تھے۔ (عبارت یہ ہے)۔
کان
ابن عمر لا یقرأ خلف الامام جہر اولم یجہر․
(کتاب القرأۃ للبیھقی، ص۱۸۴)۔
(۵)……حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ
امام کے پیچھے سرّی و جہری نمازوں کی کسی رکعت میں قرأت نہیں کرتے۔ (عبارت یہ ہے)
ان
عبداللّٰہ بن مسعود لا یقرا خلف الامام فیما یجہر فیہ وفیہا یخافت فیہ فی
الاولیین ولا فی الاخریین․
(مؤطا امام محمد، ص۹۲)۔
(۶)حضرت علقمہ روایت
کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے کاش اس شخص کا منہ
مٹی سے بھر جائے جو امام کے پیچھے قرأت کرے۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
علقمۃ عن ابن مسعود قال لیت الذی یقرأ خلف الامام ملئی فوہ ترابًا․ (طحاوی
شریف،ج۱، ص۱۵۰،
مصنّف عبدالرزق، ج۲، ص۱۳۸،
آثار السنن،ص۸۹، اسنادہٗ حسنٌ)۔
نوٹ:
امام کے پیچھے قرأت کرنے والا چونکہ قرآن و سنت کی مخالفت کر رہا ہے اس لیے اس پر
دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔
(۷)……حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن
ثابت رضی اﷲ عنہ سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارہ میں پوچھا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے
فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں قرأت نہیں ہے۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
عطاء بن یسار انہ سال زید بن ثابت عن لقرأۃ مع الامام فقال لا قرأۃ مع الامام فی
شیءٍ․
(صحیح مسلم ج۱،ص۲۱۵ حدیث نمبر۵۷۷،
سنن نسائی، ج۱،ص۱۱۱،
طحاوی شریف ۱،ص۱۲۴)۔
چنانچہ
اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ نے
فرمایا امام کے ساتھ بالکل قرأت نہیں کی جائے گی، حضرت جابر رضی اﷲ عنہ بھی یہی
کہتے ہیں اور حضرت علی، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی
کثیر تعداد کا یہی قول ہے کہ امام کے پیچھے قرأت نہیں ہے۔ (عبارت یہ ہے)۔
و
زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ گفتہ لا قرأۃ مع الامام فی شیء رواہ مسلم و عن جابر
رضی اللّٰہ عنہ بمعناہ وھو قول علی رضی اللّٰہ عنہ و ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ و
کثیر من الصحابۃ۔ (ھدایۃ السائل ص۱۹۳)۔
(۸)……حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ فرماتے
ہیں امام کے پیچھے بالکل قرأت نہ کی جائے خواہ امام اونچی آواز سے پڑھے یا آہستہ
یعنی نہ جہری نماز میں اور نہ سرّی میں۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
زید بن ثابت قال لا یُقرأ خلف الا امام جہر ولا ان خافت․
(مصنف ابن ابی شیبہ ج۱،ص۳۷۶، باب من کرہ القرأۃ خلف الامام)۔
(۹)……حضرت قاسم بن محمد روایت کرتے ہیں
کہ فرمایا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کہ امام کے پیچھے قرأت نہ کی جائے خواہ امام
اونچی آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز سے۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
قاسم بن محمد قال قال عمر بن الخطاب لایقرأ خلف الامام جہر اولم یجہر․ (کتاب القرأۃ، ص۱۴۸)۔
(۱۰)……حضرت محمد بن عجلان روایت کرتے ہیں
کہ بے شک حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے کاش اُس شخص کے منہ میں پتھر پڑے جو
امام کے پیچھے قرأت کرتا ہے۔ (عبارت یہ ہے)
عن
محمد بن عجلان ان عمر بن الخطاب قال لیت فی فم الذی یقرأ خلف الامام حجراً․ (مؤطا امام محمد ص۱۰۲، وسندہ صحیح)۔
(۱۱)……سیدنا علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جس
نے امام کے پیچھے قرأت کی پس تحقیق اس نے فطرت (یعنی اسلام) کے سمجھنے میں غلطی
کھائی۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
علی قال من قرأ خلف الامام فقد اخطأ الفطرۃ․
(مصنف عبدالرزاق ج۲،ص۱۳۷،
مصنف ابن ابی شیبہ ج۱،ص۳۷۶)۔
(۱۲)……سیدنا جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں
کہ جس نے نماز کی کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں اُس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اُس
کی نماز نہیں ہوئی مگر جبکہ وہ امام کے پیچھے ہو(یعنی امام کی اقتداء میں جو نماز
پڑھے گا اُس میں فاتحہ یا کوئی اور سورت پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ امام کی قرأت
فاتحہ وغیرہ مقتدی کو کافی ہو جائے گی) (عبارت یہ ہے)۔
عن
ابی نعیم وھب بن کیسان انہ سمع جابر بن عبداللّٰہ یقول من صلی رکعۃ لم یقرأ فیہا
بام القرآن فلم یصل الاوراء الامام․ (مؤطا امام مالك ص۶۸، جامع ترمذی ج۱،ص۱۶۰، و قال ھذا حدیث صحیح، مصنف ابن ابی
شیبۃ، ج۱، ص۳۷۶،
السنن الکبریٰ للبیھقی، ج۱، ص۱۶۰، طحاوی شریف ج۱،ص۱۴۹)۔
(۱۳)……حضرت عبید اﷲ بن مقسم
فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کیا ظہر و عصر میں امام
کے پیچھے آپ کچھ پڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
عبیداللّٰہ بن مقسم قالت سالت جابر بن عبداللّٰہ اتقرأ خلف الامام فی الظہر والعصر
شیئًا؟ فقال لا․ (مصنف عبدالرزاق،
ج۲، ص۱۴۱،
سندہ صحیح)۔
بعینہٖ
اس طرح کے سوال کا جواب حضرت سوید بن غفلہ رضی اﷲ عنہ سے ثابت ہے۔ (مصنف ابن ابی
شیبہ ج۱،ص۳۷۷)۔
(۱۴)……حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں پسند کرتا ہوں کہ جو امام کے پیچھے قرأت کر رہا ہے اُس کے منہ
میں انگارہ ہو(کیونکہ وہ کتاب اﷲ و سنت رسول اﷲ کی مخالفت کر رہا ہے) ۔ (عبارت یہ
ہے)۔
عن
ابی نجاد عن سعد قال وددت ان الذی یقرأخلف الامام فی فیہ جمرۃ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ
ج۱،ص۳۷۶ و
مؤطا امام محمد ص۱۰۱)۔
(۴)آثارِ تابعین رحمۃ اﷲ علیہم سے دلائل
(۱)……محدّث عبدالرزاق روایت کرتے ہیں ابن
جریج سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء رحمۃ اﷲ علیہ سے سوال کیا کہ امام کی
اقتداء میں نماز پڑھنے والے شخص کو امام کی قرأت تمام سرّی و جہری نمازوں میں کافی
ہو جائے گی؟ تو آپ نے فرمایا جی ہاں کافی ہو جائے گی۔ (عبارت یہ ہے)۔
عبدالرزاق
عن ابن جریج قال قلت لعطاء ایجزیٔ عمن وراء الامام قرأتہ فیما یرفع بہ الصوت وفیما
یخافت؟ قال نعم․ (مصنف عبدالرزاق ج۲،ص۱۴۱)۔
(۲)……حضرت ابراہیم نخعی بیان کرتے کہ
حضرت علقمہ بن قیس نے امام کے پیچھے کبھی کسی نماز میں قرأت نہیں کی نہ جہری
نمازوں میں اور نہ سرّی میں …… نہ فاتحہ اور نہ کوئی اور سورۃ…… (عبارت یہ ہے)۔
عن
ابراھیم ما قرأ علقمۃ بن قیس قط فیما یجہر فیہ ولا فیما لا یجہر فیہ ولا فی
الرکعتین الاخریین ام القرآن ولا غیرھا خلف الامام․ (کتاب الآثار لامام
محمد مع تعلیق الشیخ ابو الوفاء الافغانی ج۱،ص۱۶۳، وقال المحدث نیموی اسنادہ صحیح،
آثارالسنن ص۹۰، تعلیقاً)۔
(۳)……حضرت مغیرہ بن مقسم ضبّی حضرت
ابراہیم نخعی رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم امام کے پیچھے قرأت
نا پسند کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تجھے امام کی قرأت ہی کافی ہے۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
مغیرۃ عن ابراھیم انہ کان یکرہ القرأۃ خلف الامام وکان یقول تکفیك قرأۃ الامام․ (مصنف
ابن ابی شیبہ ج۱،ص۳۷۷،
ورجالہ ثقات)۔
نیز
حضرت اکیل (جو حضرت ابراہیم نخعی کے مؤذن تھے) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ
اﷲ علیہ نے فرمایا جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرتا ہے وہ (قرآن و سنت کے اتفاقی
حکم میں) اختلاف ڈالنے والا ہے۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
اکیل عن ابراھیم قال الذی یقرأ خلف الامام شاق․
(مصنف ابن ابی شیبہ ج۱،ص۳۷۷، اسنادہ صحیح)۔
یعنی
قرآن و سنت میں اس بات پر اتفاق ثابت ہے کہ امام کی قرأت مقتدی کو کافی ہو جائے گی
جیساکہ گزر چکا ہے اور امام کی قرأت کو کافی نہ سمجھ کر فاتحہ یا کوئی اور سورت
پڑھتا ہے تو یہ شخص قرآن و سنت کی مخالفت کر رہا ہے۔
(۴)……محدّث حضرت ایوب سختیانی حضرت محمد
بن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا میں امام
کے پیچھے قرأت کرنے کو سنت نہیں سمجھتا۔ (عبارت یہ ہے)۔
عن
ایوب عن محمد قال لا اعلم القرأۃ خلف الامام من السنۃ․ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج۱،ص۳۷۷،
التعلیق الحسن علٰی اٰثار السنن ص۹۰)۔
یعنی
میری معلومات کے مطابق دین اسلام میں امام کے پیچھے قرأت کرنا مسنون طریقہ نہیں
بلکہ خلاف سنت ہے۔
(۵)……حضرت اسود (عظیم تابعی) رحمۃ اﷲ
علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے دانتوں سے انگارہ کاٹنا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں
امام کے پیچھے قرأت کروں جبکہ مجھے معلوم ہے کہ امام قرأت کر رہا ہے۔ (عبارت
یہ ہے)۔
قال
الاسود لان اعض علیٰ جمرۃ احب الی ان اقرأ خلف الامام اعلم انہ یقرأ․ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۱،ص۳۷۶،
سندہ صحیح)۔
فائدہ:
امام ہر نماز میں قرأت کرتا ہے خواہ سرّی نماز ہو یا جہری تو امام کی قرأت مقتدی
کے لئے کافی ہے حضرت اسود رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ بات ہر آدمی کو معلوم ہے
کہ امام پر ہر نماز میں مکمل قرأت کرنا (فاتحہ اور سورت کا ملانا) شرعاً ضروری ہے
اور یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ ہر امام ہر نماز (خواہ سرّی ہو یا جہری اس) میں
قرأت کرتا ہے تو پھر کیا مجبوری ہے کہ میں قرأت کروں بلکہ ایسی صورت میں قرأت کرنا
انگارہ کو منہ میں لینے سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ قرأت کرنے سے قرآن و سنت کی
مخالفت ہو گی اور وہ مجھے کبھی برداشت نہیں ہے۔ فافہم و لا تکن
من القاصرین
(۶)……عظیم تابعی حضرت امام شعبی رحمۃ اﷲ
علیہ فرماتے ہیں کہ ستّر (۷۰) بدری
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے میری ملاقات ہوئی وہ سب کے سب امام کے پیچھے قرأت کرنے
سے مقتدی کو روکتے تھے۔ (عبارت یہ ہے)۔
قال
الشعبی ادرکت سبعین بدریاً کلہم یمنعون المقتدی عن القرأۃ خلف الامام․ (تفسیر
روح المعانی ج۸،ص۱۳۵، پ۹
آیت واذا قریٔ)۔
زبدۃ
الکلام
علامہ
شامی حنفی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مقتدی کو تمام نمازوں (جہری و سرّی) میں
قرأت فاتحہ وغیرہ امام کے پیچھے شرعاً منع ہے۔ اسّی(۸۰) صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہم سے اِسی طرح منقول ہے جن کے اسماء گرامی حضرات محدثین رحمۃ اﷲ
علیہم نے محفوظ کئے ہیں لہٰذا فقہ حنفی میں امام کے پیچھے مقتدی کو دلائل کثیرہ کی
وجہ سے فاتحہ وغیرہ کی قرأت کرنا تمام نمازوں میں خواہ سرّی ہوں یا جہری ہوں شرعاً
مکروہ تحریمی ہے۔
وفی
التنویر وشرحہ: والمؤتم لایقرأ مطلقا ولا الفاتحۃ فی السریۃ اتفاقاً…… فان قرأ کرہ
تحریماً ۔وفی الشامیۃ۔ ومنع المؤتم من القرأۃ ماثور عن ثمانین نفرمن کبار الصحابۃ
منہم المرتضیٰ والعبادلۃ وقد دوّن اھل الحدیث اسامیہم․
(ج۲،ص۲۶۶، طبع
امدادیہ ملتان)، و فی المراقی مع الطحطاوی: قلنا ان قرء الماموم الفاتحۃ او غیرھا
کرہ تحریماً للنھی․ (ص۲۲۷) وفی العالمکیریہ، ج۱،
ص۱۰۹ طبع کوئٹہ)۔
ازالہ
شبہ:
صحیح
بخاری شریف ج۱،ص۴۰۱ کی
حدیث……
لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب …… ’’کہ نہیں نماز اس شخص کی جس نے
فاتحہ نہیں پڑھی‘‘ کو بعض لوگ بطور دلیل پیش کر کے دھوکہ دیتے ہیں کہ مقتدی کو بھی
امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے وگرنہ نماز نہ ہو گی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ
اس حدیث کا تعلق مقتدی کے ساتھ نہیں بلکہ منفرد کے ساتھ ہے جیسا کہ خود حضرت
امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے استاذ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
کہ یہ حدیث اس شخص کے بارہ میں ہے جو اکیلے نماز پڑھ رہا ہو۔ ‘‘دیکھئے جامع ترمذی
شریف، اَمَّا
احمد بن حنبل فقال معنی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا صلوٰۃ لمن یقرأ بفاتحۃ
الکتاب اذا کان وحدہ (ج۱،ص۷۱،باب ماجاء فی ترک القرأۃ خلف الامام) اسی
طرح امام بخاری کے دوسرے استاذ و مدرس حرم مکہ حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اﷲ علیہ
بھی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے جو اکیلے نماز پڑھ رہا
ہو، چنانچہ ’’ابوداؤد شریف میں ہے:
لاصلوٰۃ
لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب فصاعداً قال سفیان لمن یصلی وحدہٗ۔ (ج۱، ص۱۲۶،
باب من ترك القرأۃ فی صلوتہ)۔
حل
نمبر(۲):
صحیح
بخاری شریف کی روایت …… لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب …… مختصر
ہے جبکہ ابوداؤد شریف اور نسائی شریف وغیرہ میں یہی حدیث تفصیل کے ساتھ موجود ہے
ہم صرف تفصیلی روایات ذکر کرتے ہیں، فیصلہ خود ہو جائے گا۔
(۱) ……حضرت محمود ابن
ربیع حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے نہیں نماز اس شخص کی جس نے نہیں پڑھی سورۃ فاتحہ اور کچھ زائد۔ عبارت یہ ہے:
عن
محمود بن الربیع عن عبادۃ بن الصامت قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا
صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب فصاعداً․ (سنن نسائی، حدیث نمبر۹۱۲ باب ایجاب قرأۃ فاتحۃ الکتاب فی الصلوٰۃ)۔
(۲)……حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت
ہے کہ مجھے حکم دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں اعلان کروں کہ نہیں
نماز ہوتی مگر فاتحہ اور کچھ زیادہ پڑھنے کے ساتھ۔ عبارت یہ ہے:
عن
ابی ھریرۃ قال امرنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان انادی انہ لا صلوٰۃ الا
یقرأۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد․ (سنن
ابی داؤد، حدیث نمبر ۸۲۰، باب من ترك
القرأۃ فی صلوتہ بفاتحۃ الکتاب، مسلم، ج۱، ص۱۶۹، باب وجوب فی قرأۃ الفاتحۃ)۔
(۳)……حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے
ہیں کہ اﷲ کے رسول نے مجھے حکم دیا مدینہ میں نکل کر اعلان کر کہ نماز نہیں ہوتی
مگر قرآن پڑھنے کے ساتھ اگرچہ سورۃ فاتحہ اور کچھ زائد پڑھنے کے ساتھ، اگرچہ سورۃ
فاتحہ اور کچھ زائد پڑھنے کے ساتھ (دو بار فرمایا)۔ عبارت یہ ہے:
قال
ابو ھریرۃ قال لی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اخرج فناد فی المدینۃ انہ لا
صلوٰۃ الا بقرآن و لو بفاتحۃ الکتاب فما زاد و لو بفاتحۃ الکتاب فما زاد․
(سنن
ابی داؤد، حدیث نمبر ۸۱۹، باب من ترك
القرأۃ فی صلوتہ بفاتحۃ الکتاب)۔
(۴)……حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سورۃ فاتحہ اور جو اس کے ساتھ آسان ہو (یعنی کوئی سورۃ)
پڑھنے کا حکم دیا۔ عبارت یہ ہے:
عن
ابی سعید قال امرنا ان نقرأ بفاتحۃ الکتاب و ما تیسّر․
(ابو داؤد، ج۱، ص۱۲۵،
باب من ترك القرأۃ فی الصلوٰۃ)۔
(۵)…… حضرت ابو سعید
خدری رضی اﷲ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز
نہیں جو فرض یا فرض کے علاوہ میں الحمد اور کوئی سورۃ نہ پڑھے۔ عبارت یہ ہے:
عن
ابی سعید قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا صلوٰۃ لمن لم یقرأۃ فی کل
رکعۃ الحمد و سورۃ فی فریضۃ اوغیرھا․ (ابن ماجہ، ص۶۱، باب القرأۃ خلف الامام)۔
ان
احادیث سے معلوم ہوا کہ درحقیقت مسئلہ صرف فاتحہ پڑھنے کا نہیں بلکہ فاتحہ کے ساتھ
کوئی اور سورۃ پڑھنے کا بھی ہے، اور اس بات پر تمام علمائے امت کا اتفاق ہے کہ
فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی اور سورۃ ملانے کا تعلق امام اور منفرد کے ساتھ ہے
مقتدی کے ساتھ قطعاً نہیں ہے، لہٰذا عام لوگوں کو دھوکہ دینا کہ فاتحہ کے بغیر
نماز نہیں ہوتی، جائز نہیں ہے۔ خذ ھذا المقال، و لا تقع فی القیل والقال
اﷲ
تعالیٰ دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت بنائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم و صلی اﷲ علی خیر خلقہ محمد وّ اٰلہ و اصحابہ و اتباعہ
اجمعین۔
………… فقط واللّٰہ
یقول الحق وھو یھدی السبیل
کتبہ
العبد محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
غرہ
ذیقعدہ ۱۴۳۳ھ
تصدیق
و توثیق
محقق
العصر حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر
دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
باسمہٖ
سبحانہ و تعالیٰ
احقر
نے یہ جواب پڑھا، اس کو حق اور صحیح پایا اس کی جامعیت اور صحت کو دیکھ کر بے
ساختہ زبان پر جاری ہو گیا، للّٰہ درّ المجیب فانہ اتیٰ فی ھذا
الجواب بتحقیق عجیب فللّٰہ درّہ و علٰی اللّٰہ اجرہ․
احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
خادم الافتاء
بالجامعۃ الحقانیۃ ساھیوال سرجودھا
غرہ
من شھر ذی القعدۃ الحرام ۱۴۳۳ھ
No comments:
Post a Comment