اقامت میں تحویل وجہ کا شرعی حکم
سوال: اذان میں حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح پر دائیں بائیں چہرہ پھیرنے کا ذکر حدیث شریف میں ہے (آثار السنن، ص۶۸، باب فی تحویل الوجہ یمیناً و شمالاً) مگر اقامت یعنی تکبیر پڑھتے وقت حی علی الصلوٰۃ وغیرہ پر دائیں بائیں چہرہ پھیرنا
مسنون ہے یا نہ؟ جبکہ احسن الفتاویٰ ج۲ص۲۹۳ پر مسنون لکھا ہے فتاویٰ شامی کے حوالہ سے اسی طرح فتاویٰ دارالعلوم
دیوبند ج۲ ص۸۹ پر بھی اولیٰ لکھا ہے حقیقت واضح کریں۔
الجواب بعون الوھّاب
صرف اذان میں مشروع و مسنون ہے جو صراحۃً حدیث شریف میں منقول
ہے (سنن ابو داؤد،ج۱، ص۸۴) بعض علماء کرام نے اقامت
میں بھی تحویل وجہ عند الحیعلتین مسنون کہا ہے مگر حضرت علامہ شامی رحمہ اﷲ نے فتاویٰ
شامی میں تحریر کردہ اپنے اس قول کی خود ہی دوسرے مقام پر وضاحت فرما دی ہے (ملاحظہ
ہو: منحۃ الخالق علی البحر) کہ سب سے عمدہ اور معتدل بات یہ ہے کہ اذان میں دائیں بائیں چہرہ پھیرنا سنت
ہے، اقامت یعنی تکبیر میں نہیں ہے۔
و فی البحر: اطلق فی الالتفات و لم یقیدہ بالاذان و قدمنا عن
الغنیۃ انہ یحول فی الاقامۃ ایضًا و فی السراج الوھاج: لا یحول فیھا لانھا لاعلام الحاضرین
بخلاف الاذان فانہ اعلام للغائبین و قیل یحول اذا کان الموضع متسعًا
و فی المنحۃ علی البحر و فی السراج الوھاج: لا یحول الخ قال
فی النھر، الثانی اعدل الاقوال (ص۴۵۰، ج۱)۔
……………………………………………… فقط واللّٰہ اعلم
کتبہٗ العبد محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
۲۶؍اپریل ۲۰۱۰ء
اس فتویٰ پر جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا اور جامعہ دارالعلوم
کراچی کی تائید ملاحظہ ہوں۔
……﴿تائید نمبر:۱﴾……
محقق العصر حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
ھذا الجواب صحیح
علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اﷲ نے اسی کو حق فرمایا ہے: و نصہ ھذا قلت و الحق الصریح ھو القول الاول۔ (السعایۃ فی کشف
ما فی شرح الوقایۃ، ج۲، ص۱۸)۔
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب دیوبندی رحمہ اﷲ نے اذان
و اقامت کا فرق بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: و کذا لا تحویل فیھا۔ (محمود الروایہ حاشیہ شرح نقایہ، ج۱، ص۶۱)۔
السراج الوھاج میں لایحول کی تصریح ہے۔ النہر الفائق میں اس کو اعدل الاقوال فرمایا گیا ہے۔ صاحب
الدرالمختار علامہ علاء الدین الحصکفی رحمہ اﷲ کے نزدیک تحویل کا قول مختار ہے اور
شارح منیہ نے بھی اسے سنت متوارثہ قرار دیا ہے اسی لیے حضرت اقدس حکیم الامت تھانوی
قدس سرہٗ نے اسے امداد الفتاویٰ میں مسنون لکھ دیا ہے لیکن بہشتی گوہر میں اسے صرف
اذان کی سنت قرار دیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ امداد الفتاویٰ کے قول سے حضرت تھانوی
نے رجوع فرما لیا ہے اور اس مسئلہ میں آپ کی تحقیق بدل گئی امداد الفتاویٰ کا فتویٰ
سن ۱۳۰۳ھ کا تحریر کردہ ہے جو
حضرت کے ابتدائی دور کا ہے اور بہشتی گوہر کے مسائل پر نظر ثانی سن ۱۳۴۴ھ میں ہوئی اس وقت حضرت
کی تحقیق یہی قرار پائی کہ تحویل فقط اذان میں مسنون ہے ادھر علامہ شامی رحمہ اﷲ جنہوں
نے صاحب در کے قول و کذا فیھا مطلقًا سے شامیہ میں کوئی اختلاف نہیں فرمایا بعد میں منحۃ الخالق علی البحر میں عدم التفات کو ترجیح دے رہے ہیں اس لیے اقامت میں تحویل وجہ کو سنت قرار دینا
صحیح نہیں ہے، ھذا ھو الحق و علیہ عمل مشایخنا و آبائنا، واللّٰہ اعلم۔
احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
خادم دارالافتاء بالجامعۃ الحقانیہ ساہیوال سرجودھا
عشرون من شہر جمادی الاولیٰ سن ۱۴۳۱ھ
……﴿تائید نمبر:۲﴾……
محترم جناب مفتی صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام! زید اور بکر میں
اس بات میں اختلاف ہے کہ اذان و اقامت میں حی الصلاۃ اور حی الفلاح پر دائیں بائیں چہرہ پھیرنا سنت ہے کہ نہیں؟ زید کا مؤقف یہ
ہے کہ احناف کے نزدیک اذان و اقامت دونوں میں چہرہ پھیرنا مسنون ہے، دلیل میں وہ فتاویٰ
شامی اور امداد الفتاویٰ کا حوالہ دیتے ہیں۔ بکر کا مؤقف یہ ہے کہ اذان میں تو مسنون
ہے دائیں بائیں چہرہ پھیرنا، لیکن اقامت میں نہیں، دلیل میں وہ ایک فتویٰ پیش کرتا
ہے جس کی فوٹو کاپی ارسال ہے۔ رہا علامہ شامی اور تھانوی صاحب ان دونوں نے بعد میں
اپنے قول سے رجوع کیا ہے۔ دیکھئے (بہشتی گوھر اور منحۃ الخالق علی البحر)۔
اب نمبروار ان سوالوں کے جواب دے کر مشکور فرمائیں:
سوال نمبر(۱):احناف کے نزدیک راجح قول کیا ہے؟ کیا اذان و اقامت دونوں میں
مسنون ہے یا صرف اذان میں؟
سوال نمبر(۲):علامہ شامی اور حضرت تھانوی کا آخری قول کیا ہے؟ دونوں میں مسنون
ہے یا صرف اذان میں؟
سوال نمبر(۳):فتاویٰ شامی اور منحۃ الخالق علی
البحر ان دونوں میں سے آخری کتاب کون سی ہے؟
سوال نمبر(۴)امداد الفتاویٰ اور بہشتی گوھر ان دونوں میں سے آخری کتاب کون
سی ہے؟ باحوالہ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
الجواب حامدًا و مصلّیًا
(۱)یہ مسئلہ حضرات فقہاء کرام کے درمیان مختلف فیہ ہے اور دونوں طرف دلائل بھی ہیں
چنانچہ کئی حضرات فرماتے ہیں کہ اذان اور اقامت دونوں میں حی الصلوٰۃ کہتے وقت دائیں طرف اور حی الفلاح کہتے وقت بائیں طرف چہرہ پھیرنا مسنون ہے لیکن بہت سے حضرات
نے اس قول کو راجح قرار دیا ہے کہ اذان میں تو چہرہ پھیرنا مسنون ہے مگر اقامت میں
مسنون نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ شامی نے منحۃ الخالق میں اسی رائے کو سب سے زیادہ معتدل اور راجح رائے قرار دیا
ہے۔
حضرت شیخ الادب و الفقہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب بھی ’’محمود الروایۃ‘‘ میں لکھتے ہیں
کہ اذان و اقامت میں کچھ فرق ہیں ایک یہ ہے کہ راجح قول کے مطابق اقامت میں چہرہ پھیرنا
مسنون نہیں ہے۔ اور حضرت علامہ عبدالحی صاحب لکھنؤی نے بھی ’’سعایہ‘‘ میں اسی قول کو حق کہا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب
ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ’’اقامت میں تحویل وجہ حیعلتین کے وقت سنت موکدہ نہیں
اس لیے یہاں اس کا اہتمام نہیں (فتاویٰ محمودیہ ۵؍۴۶۵)۔
لہٰذا بہت سے حضرات فرماتے ہیں کہ صحیح قول یہی ہے کہ اقامت
میں چہرہ پھیرنا مسنون نہیں ہے البتہ اذان میں بالاتفاق مسنون ہے۔ (آداب اذان و اقامت
صفحہ۵۳ مولانا مفتی محمد امین پالنپوری)۔
و فی منحۃ الخالق حاشیۃ البحر الرائق (۱؍۴۵۰): ’’قولہ فی السراج الوھاج! لا یحوّل الخ قال فی النھر، الثانی اعدل
الاقوال‘‘۔
و فی محمود الروایۃ حاشیۃ شرح نقایہ (۱؍۶۱): ’’ان الاقامۃ لیست کالاذان فی وجوہ، منھا، وضع الاصبعین فی الاذنین، و لیست کذلک
فی الاقامۃ علی القول المعتمد و کذا لا تحویل فیھا‘‘۔
و فی سعایہ فی کشف ما فی شرح الوقایۃ (۲؍۱۸): ’’ھل یحول وجھہ فی الاقامۃ ایضا فیہ ثلٰثۃ اقوال الاوّل انہ لا
یحول لا نہ لا علام الحاضرین بخلاف الاذان فانہ یکون للغائبین۔ و الثانی انہ یحول فیھا
لو کان المحل متسعاّ و الا فلا۔ و الثالث انہ یحول فیھا مطلقاّ، …… وھو الذی اختارہ
الحصکفی قلت ھو الصریح ھو القول الاوّل‘‘۔
(۲)علامہ شامی اور حضرت تھانوی کا آخری قول یہ ہے کہ اقامت میں چہرہ پھیرنا مسنون
نہیں ہے یہ صرف اذان میں مسنون ہے۔
(۳)فتاویٰ شامی اور منحۃ الخالق علی البحر ان دونوں میں سے آخری کتاب منحۃ الخالق ہے چنانچہ حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع نوّر اللّٰہ
مرقدہٗ، علامہ شامی کا طرز و انداز بیان کرتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں:۔
’’لیکن یہ طریقہ ’’ردالمحتار‘‘ میں رہا ہے مگر چونکہ
علامہ شامی رحمہ اﷲ نے ’’البحر الرائق‘‘ کا حاشیہ منحۃ الخالق اور ’’تنقیح الحامدیہ‘‘ بعد میں لکھا ہے اس لیے ان کتابوں میں مسائل زیادہ منقح انداز
میں آئے ہیں‘‘۔ (بحوالہ البلاغ مفتی اعظم نمبر صفحہ نمبر۴۲۰،۴۲۱)۔
(۴)امداد الفتاویٰ کا وہ حصہ جس میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے اور بہشتی گوہر میں سے آخری
کتاب بہشتی گوہر ہے کیونکہ امدادا لفتاویٰ کے مذکورہ مسئلہ کے ساتھ یہ تاریخ درج ہے
۱۳ جمادی الاولیٰ ۱۳۰۳ھ۔ جبکہ بہشتی گوہر کے آخر میں یہ درج ہے کتبہ اشرف علی ۲۷جمادی اخری ۱۳۳۲ھ۔
…………………… واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب
عرفان احمد
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
۸؍شوال المکرم ۱۴۳۶ھ، ۲۵؍جولائی ۲۰۱۵ء
……تصدیقات……
(۱)الجواب صحیح (۲)الجواب صحیح (۳)الجواب صحیح
احقر محمود اشرف غفراللّٰہ لہٗ شاہ محمد تفضل علی عفی عنہٗ سید حسین عفی عنہٗ
۸؍شوال ۱۴۳۶ھ ۱۰؍۱۰؍۱۴۳۶ھ ۹؍۱۰؍۱۴۳۶ھ
No comments:
Post a Comment