عقائدِ
فاسدہ کے حامل امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا شرعی حکم
سوال:
ایسا شخص جو اﷲ تعالیٰ کی بعض صفات (جو کہ اﷲ کے ساتھ خاص ہیں) کسی نبی یا ولی کے لیے
ثابت سمجھتا ہو جیسے انبیاء کرام و اولیاء عظام کو ’’عالم الغیب‘‘ سمجھنا، یا ان کو
اﷲ کی طرح ہر جگہ ’’حاضر و ناظر‘‘ (ہر جگہ، ہر وقت موجود اور دیکھنے والا) سمجھنا ایسے
شخص کا نماز پڑھانا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں۔
الجواب
بعون الوھّاب
جس
طرح صحیح مسلمان بننے کے لیے شریعت محمدیہ سے ثابت شدہ عقائد صحیحہ کو اختیار کرنا
ضروری ہے اسی طرح امام مسجد کے لیے بھی صحیح العقیدہ ہونا شرعاً ضروری ہے چونکہ صورت
مسؤلہ میں امام مسجد کے عقائد محققین اہلسنت کے نزدیک کفریہ و شرکیہ ہونے کی وجہ سے
قرآن و سنت سے متصادم ہیں اس لیے ایسے شخص کا امام بننا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا
شرعاً ناجائز ہے جب تک ان غلط عقائد سے تائب نہ ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
اکابر اہلسنت
کی چند عبارات ذیل میں ملاحظہ ہوں:
(۱)مفتی عبدالرحیم لاجپوری
چشتی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب سمجھتا ہو اس کے پیچھے
نماز درست نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ، ج۴، ص۱۷۱، ۱۹۱،۱۴۰، جدید)۔
(۲)علامہ رشید احمد چشتی
رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ:انبیاء کو عالم الغیب ماننے والا مشرک ہوا، اس کے پیچھے
نماز درست نہیں۔ (فتاویٰ رشیدیہ، ص۴۸،۷۲)۔
(۳)مفتی عزیز الرحمن نقشبندی
رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: انبیاء کرام کو غیب دان سمجھنے والے کے پیچھے نماز درست نہیں۔
(عزیز الفتاویٰ، ص۱۹۲)۔
(۴)علامہ عبدالعزیز پرھاڑوی
رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: اگر عقائد کفر کی حد تک پہنچ جائیں تو اس کے پیچھے نماز درست
نہیں۔ (النبراس شرح، شرح العقائد، ص۳۲۶)۔
(۵)علامہ عبدالحئی لکھنؤی
رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرات اولیاء عظام رحمۃ
اﷲ علیہم کو ہر وقت حاضر و ناظر ماننا ہر اعتبار سے شرک ہے کیونکہ یہ صفت اﷲ تعالیٰ
کے ساتھ خاص ہے کہ کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے۔ اصل فارسی عبارت یہ ہے:
فی
الواقع ھمچو اعتقاد کہ حضرات انبیاء و اولیاء ہر وقت حاضر و ناظر اند و بہمہ حال بر
نداء ما مطلع می شوند اگرچہ از بعید باشد شرک است چہ ایں صفت از مختصاتِ حق جلّ جلالہٗ
است کسے را دراں شرکت نیست (مجموعۃ الفتاویٰ، تحت کتاب العقائد، ج۱، ص۲۸، طبع لکھنؤ)۔
(۶)حضرت مُلّا علی قاری
حنفی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: علم غیب اﷲ تعالیٰ اکیلے کی صفت ہے مخلوق کو اس میں
کوئی دخل نہیں مگر اﷲ کی طرف سے اطلاع ہو (نبی پر) وحی کے ساتھ …… یا دیگر ممکنہ علامات
کے ساتھ چنانچہ نبی کو جو بھی علم حاصل ہوتا ہے وہ اﷲ کے بتانے پر موقوف ہے (اس کو
محققینِ اہلسنت ’’خبرِ غیب‘‘ کہتے ہیں، یہ ’’علمِ غیب‘‘ نہیں) ۔…… چند سطر بعد فرماتے
ہیں کہ حنفی علماء کرام نے حضرت نبی کریم علیہ السلام کے بارہ میں عالم الغیب کا عقیدہ
رکھنے والے کو کافر قرار دیا ہے کیونکہ یہ عقیدہ قرآن کریم کی آیت ’’قل لا
یعلم من فی السٰمٰوات و الارض الغیب الا اللّٰہ (سورۃ عنکبوت، آیت
نمبر۶۵) (یعنی کہہ دیجیے (اے نبی!) آسمان و زمین میں
عالم الغیب صرف اﷲ تعالیٰ ہے) کے مخالف ہے۔
دیکھیے
شرح فقہ اکبر: و
بالجملۃ فالعلم بالغیب امر تفرد بہ سبحانہٗ و لا سبیل للعباد الیہ الا باعلام منہ
…… ثم اعلم ان الانبیاء علیھم الصلوٰۃ و السلام لم یعلموا المغیبات من الاشیاء الا
ما علمھم اللّٰہ تعالیٰ احیانًا، و ذکر الحنفیۃ تصریحًا بالتکفیر باعتقادہ ان النبی
علیہ الصلوٰۃ و السلام یعلم الغیب لمعارضۃ قولہٖ تعالٰی: ’’قل لا یعلم من فی السٰمٰوات
و الارض الغیب الا اللّٰہ‘‘۔ (ص۱۵۱)۔
(۷)فقہ حنفی کی معتبر
کتاب ’’فتاویٰ عالمگیریہ‘‘ میں ہے کہ بدعقیدہ امام کے پیچھے نماز درست نہیں ہے۔
و
فی الفصل الثانی تحت باب الامامۃ: و لم یُطعن فی دینہ کذا فی الکفایۃ و ھکذا فی النھایۃ
…… و فی الفصل الثالث و لا تجوز (الصلوٰۃ) خلف الرافضی و الجھمی۔ (ج۱، ص۸۴،
م کوئٹہ)۔
(۸)فقہ حنفی کی کتاب ’’تنویر
الابصار مع درمختار‘‘ میں ہے کہ کفریہ عقائد رکھنے والے کے پیچھے کسی حالت میں
بھی شرعاً نماز درست نہیں ہے۔
و
فی باب الامامۃ یکرہ امامۃ عبد …… و ان انکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفربھا فلا
یصح الاقتداء بہٖ اصلاً فلیحفظ۔ (الدر المختار مع الشامیہ، ج۲،
ص۳۰۱، م ملتان)۔
خلاصہ
یہ ہے کہ اگر یقین کے ساتھ اس بات کا علم ہو کہ امام کے عقائد کفر و شرک تک پہنچ گئے
ہیں تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا شرعاً ناجائز ہے۔……………………………… فقط واللّٰہ
الحق و الیہ الماٰب و ھو یھدی الیٰ الحق و الصواب
حرّرہٗ
العبد محمد
اعظم ہاشمی غفرلہٗ
الغنی
۱۲؍صفر المظفر ۱۴۳۲ھ
تصدیق
محقق اہلِ
سنت حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر
دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
ان کان
ذالک فکذالک
احقر عبدالقدوس
ترمذی غفرلہٗ
۴؍۷؍۱۴۳۲ھ
No comments:
Post a Comment