اذانِ مغرب
اور نماز کے درمیان وقفہ کی مقدار
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ مغرب کی اذان کے بعد نماز
میں کتنا فاصلہ ہونا چاہیے اگر فاصلہ ہے تو ازروئے شریعت اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
اس بارے میں علماءِ احناف کا مفتیٰ بہٖ قول کیا ہے؟ اور اکابر اہلسنت علماءِ دیوبند
کا عمل اس بارے میں کیا ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ لوگوں کے انتظار کے لیے اگر ۵؍منٹ کا فاصلہ کر لیا جائے تو از روئے شریعت
کیا اس کی اجازت ہے؟
اس
بارے میں بازار کی مسجد اور محلے کی مسجد میں فصل کا کیا حکم ہے؟ بہرحال موجودہ حالات
میں اذان مغرب اور نماز کے درمیان کتنے منٹ کا وقفہ ہونا چاہیے، تفصیل کے ساتھ مع حوالہ
جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب
و اللّٰہ الھادی الٰی الصواب
و
فی التنویر و شرحہ: و تعجیل مغرب مطلقًا و تاخیرہ قدر رکعتین یکرہ تنزیھًا۔ و قال العلامۃ
الشامی تحت قولہ مطلقًا ای شتاءً و صیفًا …… یکرہ تنزیھًا افادان المراد بالتعجیل ان
لا یفصل بین الاذان و الاقامۃ بغیر جلسۃ او سکتۃ علی الخلاف و ان ما فی القنیۃ من استثناء
التاخیر القلیل معمول علٰی ما دون الرکعتین و ان الزائد علی القلیل الٰی اشتباک النجوم
مکروہ تنزیھًا و ما بعدہٗ تحریمًا الا بعذر (ج۱،
ص۳۴۳) ایضًا فی التنویر: و اخر المغرب الٰی اشتباک
النجوم کرہ تحریمًا الا بعذر کسفروکونہ علٰی اکل۔ قال العلامۃ الشامی: ھو الاصح ……
و الظاھر ان السنۃ فعل المغرب فورًا و بعدہٗ مباحٌ الٰی اشتباک النجوم فیکرہ بلا عذر
اھ قلت ای یکرہ تحریمًا و الظاھر انہ اراد بالمباح مالا یمنع فلاینا فی کراھۃ للتنزیھۃ
(ج۱، ص۳۴۲،
م مصری) و فی الھامش علی شرح النقایۃ: و یجلس فی کل صلٰوۃ بینھما ای بین الاذان و الاقامۃ
الا فی صلٰوۃ المغرب فانہ لا یجلس فیھا بل یسکت بعد الاذان قائمًا ساعۃً ثم یقیم و
مقدار السکتۃ ما یتمکن فیہ من قرأۃ ثلٰث اٰیات قصار اواٰیۃ طویلۃ و قیل قدر ما یخط
ثلٰث خطوات و عندا بیوسف و محمد یجلس فی المغرب ایضًا جلسۃ خفیفۃ مقدار ما یجلس للخطیب
بین الخطبتین (ج۱، ص۱۳۵،
مصری)۔
و
فی اعلاء السنن: عن سلمۃ رضی اللّٰہ عنہ قال کنا نصلی مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
المغرب اذا توارت بالحجاب، رواہ البخاری (ج۱، ص۷۹) قال شیخ المحدثین ای العلامۃ الفقیہ ظفراحمد
العثمانی تحت ھذا الحدیث: قلت الحدیث یدل علٰی کون التعجیل فی المغرب سنّۃ، فانّ سلمۃ
رضی اللّٰہ عنہ بیّن عادتَہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المستمرّۃ فی صلٰوۃ المغرب و ھی
التعجیل و ما ھو خلاف عادتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی مثل ھذا الموضع فھو مکروہٌ فثبت
بہ کراھۃ التاخیر (ج۲، ص۴۰) ایضًا فی الاعلاء: قال النووی فی شرح المسلم
ان تعجیل المغرب عقیب غروب الشمس مجمعٌ علیہ (ج۲،
ص۴۱)، ایضًا فی الاعلاء: قال المحدث الکبیر لم
یجتمع اصحابُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی شیء کاجتماعھم علی التنویر فی
الفجر و التعجیل فی المغرب کذا فی جامع المسانید للامام الاعظم (ج۱، ص۲۹۵)،
و فی الطبرانی: صلّوا صلٰوۃ المغرب مع سقوط الشمس، مجمع الزوائد و رجال الطبرانی موثّقون
(ج۲، ص۴۰،
اعلاء)۔
مذکورہ
بالا عبارات سے درج ذیل امور مستفاد ہوئے:
(۱)موسم سرما ہو یاگرما
نمازِ مغرب میں شرعاً تعجیل (جلدی پڑھنا) مسنون و مستحب ہے۔
(۲)دو رکعت کی مقدار سے
لے کر آسمان پر ستاروں کے خوب ظاہر ہونے تک تاخیر مکروہ تنزیہی ہے، کما قال
العلامۃ الشامی و الشیخ علامہ ظفر احمد العثمانی لحدیث سَلَمَۃَ رضی اللّٰہ عنہ۔
(۳)جب ستارے خوب ظاہر
ہو جائیں اس وقت تک نماز کی تاخیر مکروہ تحریمی ہے، کذا فی الشامیۃ۔
(۴)اگر کوئی شرعی عذر
ہو جیسے سفر میں ہو یا کھانے وغیرہ کی شدت باعث تاخیر ہو تو دونوں کراہتیں مرتفع (اٹھ
جائیں گی) ہوں گی اور نماز۔ مغرب کے اخیر وقت میں بھی بلا کراہت جائز ہو گی، جبکہ مغرب
کا کل وقت غروب آفتاب کے بعد ایک گھنٹہ تک ہے۔ (ملخصاً امداد الاحکام، ج۱، ص۴۰۶)۔
(۵)علامہ عثمانی قدس سرہٗ
تعجیلِ مغرب کی تائید میں حضرت سلمہ رضی اﷲ عنہ کی حدیث صحیح بخاری کے حوالہ سے لائے
ہیں اور اس سے استدلال فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ آنحضرت ﷺ کی ہمیشہ کی عادت مبارکہ نقل فرما رہے ہیں
اور ہمیشہ کی عادت دلالت کرتی ہے کہ یہ تعجیل (جلدی پڑھنے) کا عمل سنت ہے، فلہٰذا ہمیشہ
کی عادت کے خلاف کرنا کراہت سے خالی نہیں، ھکذا فی الشامیۃ۔
(۶)علامہ نووی رحمہ اﷲ
کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کو جلدی پڑھنے پر امت کا اجماع ہے۔
(۷)علامہ عثمانی رحمہ
اﷲ آخر میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم جتنے دو ٗوقتوں پر جمع ہوئے ہیں
اتنے کسی اور موقع پر نہیں ہوئے، نمبر۱:صبح کی
نماز کے وقت پر فجر کو روشن کر کے پڑھنا، نمبر۲: وقتِ
مغرب میں نماز جلدی پڑھنا اور دلیل کے لیے آنحضرت ﷺ کا فرمان (یعنی قولی حدیث) پیش فرماتے ہیں
کہ ’’تم مغرب کی نماز پڑھو جیسے ہی سورج غروب ہو‘‘ (مجمع الزوائد) اور یہ اصول محدثین
کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ کے فرمان (حدیث قولی) کو آپ کے عمل (فعلی پر) پر ترجیح ہوتی
ہے۔ (تدریب الراوی و مقدمہ ابن الصلاح)۔
زُبدۃ
الکلام یہ ہے کہ گرمی ہو یا سردی، مسجد محلہ کی ہو یا بازار کی، اذانِ مغرب کے بعد
فوراً نماز شروع کرنا مسنون ہے، اسی پر عمل کیا جائے،
رہا
یہ کہ ’’پانچ منٹ تک مقتدیوں کا انتظار کرنا‘‘، تو اس بارے میں عباراتِ فقہاء (مؤید
بالحدیث) واضح ہیں کہ اس کو معمول نہ بنایا جائے۔البتہ اگر کوئی عذر ہو تو اس صورت
(پانچ منٹ) پر بھی عمل کرناجائز ہے لیکن بلاعذر خلافِ سنت و مستحب معمول کے ترک (چھوڑنے)
پر ہمیشگی کراہت سے خالی نہیں ہے اور صاحبِ مذہب سرتاج المحدثین امام ابوحنیفہ رحمہ
اﷲ کے عمل کے بھی خلاف ہو گا۔
صاحبِ مذہب
کا عمل:
حضرت
یعقوب (یعنی امام ابو یوسف) رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے (اپنے استاذ) ابو حنیفہ
(رحمۃ اﷲ علیہ) کو دیکھا کہ وہ مغرب کی اذان اور اقامت پڑھتے مگر اذان اور اقامت کے
درمیان نہیں بیٹھتے تھے، دیکھیے شرح البدایہ: قال یعقوب رأیت ابا حنیفۃ یؤذن
فی المغرب و یقیم و لا یجلس بین الاذان و الاقامۃ (ج۱،
ص۹۰، باب الاذان) اس لیے پانچ منٹ کی
تاخیر کے معمول سے احتراز کرنا چاہیے۔ فافھم و لا تقع فی الوھم
نوٹ:
باقی اکابر علماءِ دیوبند رحمہم اﷲ کے عمل کی وضاحت کے لیے حضرت مفتی (سیدی و سندی
فقیہ العصر اسوۃ اھل البصر سیّد مفتی عبدالشکور صاحب ترمذی دامت فیوضھم) کی تحریرِ
نحریر سامی ذیل میں ملاحظہ کر لی جائے۔
کتبہٗ
الراجی عفور بہ القوی محمد اعظم الہاشمی غفرلہٗ الغنی بلطفہ
الجلی و الخفی
(مدرس
جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا)
۵؍جمادی ثانیہ۱۴۲۰ھ
(۱)تصدیق
فقیہ العصر
حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالشکور ترمذی قدس سرہٗ
یہ
جواب تفصیلی فقہائے احناف اور احادیث کے موافق لکھا گیا ہے، للّٰہ
در المجیب فقد اصاب فیما اجاب، اس کے موافق عمل کرنا چاہیے، اذان مغرب کے
بعد وقفہ سے غیر مقلدین کی تائید دو رکعتوں کے پڑھنے میں ہوتی ہے۔ احقر ناقص العلم
و الفہم کو الحمد للّٰہ اکثر اکابر علماء دیوبند، تھانہ بھون، اورمظاہر علوم سہارنپور
رحمہم اللّٰہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک زمانہ دراز تک رہنے اور استفادہ کی توفیق نصیب
ہوئی ہے، ان سب حضرات کا یہی عمل دیکھنے میں آیا کہ رمضان المبارک کے علاوہ مغرب کی
اذان کے بعد بغیر فصل اقامت شروع ہو جاتی تھی کوئی وقفہ نہیں ہوتا تھا، اس سنت اورمتوارث
عمل کے خلاف معمول بنانا کراھت سے خالی نہیں ہو گا، جیسا کہ اوپر تفصیل سے لکھ دیا
گیا ہے۔
ویسے
بھی نئی بات کسی مصلحت سے شروع کی جاتی ہے تو وہ فائدہ کی بجائے مسلمانوں میں افتراق
و اختلاف کا سبب بن جاتی ہے، اس لیے پہلے عمل کو ہی معمول بنایا جائے دوسرا عمل معمول
بناکر اختلاف کی بنیاد نہ رکھی جائے۔…………………… فقط واللّٰہ اعلم ھذٰا
ماظھرلی
سید عبدالشکور
ترمذی عفی
عنہٗ
جامعہ حقانیہ
ساہی وال ضلع سرگودھا
۵ ج۲ ۱۴۲۰ھ
(۲)تصدیق
محقق العصر
حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم العالی
صدر مفتی
جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا
الصواب
منحصر فی ھذا الجواب و ما کتبہ العلام حضرت فقیہ العصر مدظلہم فھو حق حقیق بالقبول
لانہٗ ھو المعمول۔……فقط
احقر سید عبدالقدوس
الترمذی غفرلہٗ
۵؍جمادی الاخریٰ ۱۴۲۰ھ
اضافہ
مغرب کی
اذان کے بعد دو رکعت نفل نہیں پڑھنا چاہیے جیسا کہ ذیل میں ملاحظہ ہو:
(۱)حضرت طاؤس رحمہ اﷲ
فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے
بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا میں نے رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں کسی کو بھی یہ دو رکعتیں پڑھتے
ہوئے نہیں دیکھا ۔ (ابو داؤد،ج۱،ص۱۸۲)۔
(۲)حضرت ابراہیم نخعی
رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم نے مغرب سے پہلے
دو رکعتیں نہیں پڑھیں۔ (مصنف عبدالرزاق، ج۲، ص۴۳۵)۔
(۳)حضرت عبداﷲ بن بریدہ
رضی اﷲ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہر
دو اذانوں کے درمیان نماز ہے سوائے مغرب کے۔ (کشف الاستار عن زوائد مسند البزار،ج۱،ص۳۳۴)۔
……٭……
The best casino games for android and iOS - KT Hub
ReplyDeleteYou can now 서울특별 출장안마 play the best 세종특별자치 출장안마 casino games for android and iOS. · One 정읍 출장안마 of the best apps for android is 용인 출장마사지 the Best Blackjack 강릉 출장샵 with the Best