Fajar Ki Sunnatain Parhnay Ka Shari Hukm

فجر کی سنتیں پڑھنے کا شرعی حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل امور کے بارے میں:
(۱)اگر فجر کی نماز کھڑی ہو جائے تو سنتیں پڑھی جا سکتی ہیں یا نہیں؟
(۲)فجر کی سنتیں فرضوں سے پہلے پڑھنی رہ جائیں تو فرضوں کے فوراً بعد پڑھی جا سکتی ہیں یا طلوع کے بعد پڑھی جائیں؟
(۳)بعض حضرات (یعنی غیرمقلدین) کہتے ہیں کہ اگر سنتیں فرضوں سے پہلے پڑھنی رہ جائیں تو ان کو فرضوں کے فوراً بعد پڑھنا چاہیے اور دلیل میں ترمذی کی یہ روایت پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’محمد بن ابراہیم اپنے دادا قیس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ نبی کریم نکلے پس نماز قائم کی گئی پس میں نے ان کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی پھر نبی کریم پھرے پس انہوں نے مجھے نماز پڑھتا ہوا پایا انہوں نے کہا اے قیس! رک جاؤ کیا دو نمازیں اکٹھی ہیں میں نے کہا میں نے فجر کی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کوئی حرج نہیں‘‘۔ (ترمذی،ج۱،ص۵۷) اس حدیث کا جواب کیا ہے؟ بینوا و توجروا

الجواب و بیدہٖ ازمّۃ الحق و الصواب
و فی التنویر و شرحہ: اذا خاف فوت رکعتی الفجر لا شتغالہ بسنتھا ترکھا …… و الا بان رجا ادراک رکعۃ فی ظاھر المذھب و قیل التشھد …… لا یترکھا بل یصلیھا عند باب المسجد و قال الشامی تحت قولہ: قلت لکن قواہ فی فتح القدیر …… من ادرک رکعۃ من الظھر مثلا فقد ادرک فضل الجماعۃ و احرز ثوابھا کما نص علیہ محمد وفاقالصاحبیہ و کذا لوادرک التشھد یکون مدر کالفضیلتھا علی قولھم …… و قد اتفقوا علی ادراکہ بادراک التشھد فیاتی بالسنۃ اتفاقا …… (عند باب المسجد) فان لم یکن علی باب المسجد موضع للصلٰوۃ یصلیھا فی المسجد خلف ساریۃ من سواری المسجد و اشدھا کراھۃ ان یصلیھا مخالطا للصف …… و الحاصل ان السنۃ فی سنۃ الفجر ان یاتی بھا فی بیتہ (شامی، باب ادراک الفریضۃ، ج۱، ص۵۳۰، کوئٹہ)، و فی العالمکیریہ (ج۱، ص۱۲۰)، و فی الجوھرہ (ص۷۱)، و فی البحر و الخلاصہ: ان السنۃ فی رکعتی الفجر ثلٰثۃ، احدھا ان یقرأ فی الرکعۃ الاولٰی قل یا ایھا الکٰفرون و فی الثانیۃ الاخلاص و الثانی ان یاتی بھما فی بیتہ و الثالث ان یاتی بھما اول الوقت (حاشیہ ابوداؤد، ج۱، ص۱۷۸، باب رکعتی الفجر)، و فی الشامیہ: لا یقضی سنۃ الفجر الا اذا فاتت مع الفجر فیقضیھا تبعا لقضاۂ لو قبل الزوال و اما اذا فاتت وحدھلفلا تقضی قبل طلوع الشمس بالاجماع لکراھیۃ النفل بعد الصبح (ج۱، ص۵۳۰)، و فی الترمذی قولہ علیہ السلام: من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس (باب ما جاء فی اعادتھما بعد طلوع الشمس، ص۵۷)، و فی الصحیح للبخاری، قولہ علیہ السلام: لا صلٰوۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس (ج۱، ص۸۳)، ایضًا نھٰی عن الصلٰوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس (ج۱، ص۸۲، بخاری شریف)، عن عبداللّٰہ (ابن مسعود) انہ دخل فی المسجد و الامام فی الصلٰوۃ فصلّٰی رکعتی الفجر۔ عن ابی عثمان الانصاری قال جاء عبداللّٰہ بن عباس و الامام فی صلٰوۃ الغداۃ و لم یکن صلی الرکعتین فصلی عبداللّٰہ بن عباس الرکعتین خلف الامام ثم دخل معھم۔ عن ابی الدرداء انہ کان یدخل المسجد و الناس صفوف فی صلٰوۃ الفجر فیصلی الرکعتین فی ناحیۃ المسجد ثم یدخل مع القوم فی الصلٰوۃ (شرح معانی الآثار، ج۱، ص۲۲۰
احادیث میں فجر کی دو رکعت سنت کی اہمیت:
۱۔سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ظہر سے پہلے چار اور فجر سے پہلے دو رکعت (سنت) ہمیشہ پڑھی ہیں۔ (بخاری شریف، ج۱، ص۱۵۷
۲۔مسلم شریف میں ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا فجر کی دو رکعت دنیا و مافیھا سے بہتر ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ فجر کی دو رکعت (سنت) مجھے پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔ (ج۱، ص۲۵۱
۳۔نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا فجر کی سنتوں کو نہ چھوڑو اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔ قال علیہ السلام: لا تدعوھما و ان طردتکم الخیل (ابو داؤد، ج۱، ص۱۷۹
آثارِ صحابہ سے سنت الفجر کی اہمیت:
۱۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہٗ مسجد میں داخل ہوئے اور امام نماز فجر پڑھا رہا تھا تو حضرت عبداﷲ نے (نماز فجر میں شریک ہونے سے پہلے) دو رکعت سنت پڑھیں۔ (شرح معانی الآثار
۲۔حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما (مسجد میں) آئے تو امام صبح کی نماز پڑھا رہا تھا اور حضرت نے ابھی صبح کی سنتیں پڑھی نہیں تھیں چنانچہ حضرت عبداﷲ نے پہلے سنت پڑھ کر پھر جماعت میں شرکت فرمائی۔ (حوالہ بالا
۳۔حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہٗ مسجد میں آئے تو نماز شروع تھی آپ نے مسجد کے گوشہ میں پہلے دو رکعت (سنت) پڑھیں پھر جماعت میں شریک ہوئے۔ (حوالہ بالا
عندالاحناف سنت الفجر کی اہمیت:
۱۔اگر امام کے ساتھ التحیات ملنے کی امید ہو تو بھی فجر کی سنتیں نہ چھوڑو، کما صرّحہٗ العلامۃ الشامی فی الرّد۔
۲۔سنت مستقیمہ یہی ہے کہ فجر کی سنتیں گھر میں پڑھی جائیں اور اوّل وقت میں پڑھی جائیں اور پہلی رکعت میں قل یایھا الکفرون دوسری میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھی جائے،کما فی الشامیہ و البحر و الخلاصہ۔
۳۔اگر گھر سے رہ جائیں تو حدودِ مسجد سے باہر پڑھی جائیں اگر خارج مسجد مناسب جگہ (حجرہ وغیرہ) نہ ہو تو مسجد کے کسی گوشہ یا ستون کی آڑ میں امام اور مقتدیوں کی صف سے ہٹ کر پڑھی جائیں وگرنہ کراہت شدیدہ ہو گی ہاں اگر مسجد تنگ ہو تو مقتدیوں کی صف میں کھڑے ہو کر پڑھنے کی بھی گنجائش ہے لیکن اس میں بھی کراہت ہے۔
۴۔مزید صبح کی سنتوں میں اس قدر تفصیل ہے کہ اگر صبح کی نماز فرض کے ساتھ سنت بھی رہ گئی تو زوال آفتاب (نصف النھار عرفی ای نصف من طلوع الشمس الی غروب الشمس) سے قبل سنت و فرض دونوں پڑھ سکتے ہیں (بعد میں صرف فرض کی قضا ہو گی) اگر صرف سنت رہ گئی تو طلوع آفتاب سے قبل ادا کرنا بالاجماع شرعاً درست نہیں کیونکہ یہ دو رکعت سنت نفل ہو چکے ہیں اور طلوع آفتاب سے قبل نفل مکروہ تحریمی ہیں لہٰذا طلوع آفتاب کے (دس منٹ) بعد پڑھنا جائز ہے جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اﷲ نے تصریح فرمائی ہے نیز بخاری شریف میں ہے، نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کوئی نماز (نفل) صبح کے بعد جائز نہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے۔ (بخاری شریف، ج۱، ص۱۸۲،۱۸۳) اورترمذی شریف میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے فجر کی دو رکعت (سنت) نہ پڑھی ہوں تو وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔ (ج۱، ص۵۷
خلاصہ:
تحریر مذکور سے ثابت ہوا کہ دیگر مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی فقہ حنفی کا مقرون باحادیث الرسول و آثار الصحابہ ہے، فنحمد اللّٰہ و نشکر اللّٰہ علٰی ھذا المسلک المنصور بطریق ابی حنیفۃ فی الارض یوضع لہٗ القبول، و نحن نتبع اصحّ ما ثبت عن الرسول المقبول (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)۔
جامع ترمذی شریف کی روایت کا حل:
متعدد وجوہ سے مسؤل عنھا روایت قابلِ استدلال نہیں:
۱۔امام ترمذی رحمہ اﷲ نے اس حدیث کے بعد اس کے خلاف باب قائم کر کے صحیح صریح مرفوع متصل روایت (یعنی صبح کی سنت رہ جائیں تو طلوع آفتاب کے بعد پڑھی جائیں) ذکر کر کے بتانا چاہتے ہیں کہ محمد بن ابراھیم والی روایت قابلِ عمل نہیں ہے۔ (ترمذی، ج۱، ص۵۷
۲۔امام ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کے بارے میں انما یروی ھذا الحدیث مرسلًا …… و اسناد ھذا الحدیث لیس بمتصل لم یسمع محمد بن ابراھیم التیمی من قیس (ج۱، ص۵۷) یہ حدیث مرسل ہے جبکہ فرض کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے سنت پڑھنے سے منع کی حدیث صحیح بخاری کی مرفوع متصل صحیح السند ہے جو عند المعارضہ ہر طرح راجح ہے اور ترمذی کی روایت مرجوح ہو گی، کما ھو الظاھر علٰی من لہٗ ادنٰی مما رسۃ بالعلوم۔
۳۔محمد بن ابراھیم کی روایت محض تقریر رسول ہے جبکہ بخاری شریف اور ترمذی شریف کی مخالف روایتیں قولِ رسول ہیں، عندالمعارضہ محدثین کے نزدیک قول رسول کو ترجیح ہوتی ہے، کما فی کتب اصول الحدیث۔
۴۔جس صحابی کو بعد نماز فجر قبل طلوع الشمس پڑھتے دیکھا ان کو صریح الفاظ میں اجازت نہیں دی ورنہ دوسرے صحابہ بھی اس اجازت پر عمل کر لیا کرتے پس ممانعت اپنے حال پر ہے، بعض روایات میں ہے کہ ان کو دیکھ کر اور جواب سن کر فرمایا: فلا اذن۔ جس کا مطلب شرح ترمذی میں لکھا ہے کہ اگر یہ سنتیں پہلے نہیں پڑھی تھیں تب بھی ان کے پڑھنے کا یہ وقت نہیں اس سے استدلال اور صریح حدیث ممانعت والی کا ترک اصولاً درست نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ، ج۱۵،ص۶۸، قدیم ایڈیشن
۵۔غیر مقلدین کو مرسل روایت پیش کرنے کا حق ہی نہیں کیونکہ غیرمقلدین کے مشہور عالم میاں نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں: ’’سند متصل مسلسل ہی قابل اعتماد ہے‘‘۔ (معیار الحق، ص۱۹) فافھم فانہٗ دقیق و بالتامل حقیق۔ نیز غیرمقلدین خود تو ہر بات کے اثبات میں بخاری شریف سے حوالہ طلب کرتے ہیں مگر اس مسئلہ میں خود بخاری شریف کو چھوڑے ہوئے ہیں، یا اسفٰی علٰی ھذا الفہم السقیم، و الیس منھم الرجل القویم
                                                                                                                فقط واللّٰہ المستعان و علیہ التکلان
                                                                                                                کتبہ العبد محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الرحمن
                                                                                                                خادم دارالافتاء مدرسہ تعلیم الاسلام، سنت پورہ فیصل آباد
                                                                                                                                                                ۱۵؍ذوالحجہ ۱۴۲۵؁ھ
تصدیق
استاذ العلماء فضیلۃ الشیخ حضرت مفتی سیّد عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
صدر مفتی جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا
الجواب بھذا التفصیل صحیح و المجیب نجیح
                                                                                                                                                احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
                                                                                                                                                جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا
                                                                                                                                                ۲۳؍۱۲؍۱۴۲۵ھ


No comments:

Post a Comment