Tashuhad Mein Ungli Ka Ishara Karny Ka Hukam

تشہد میں انگلی کا اشارہ کرنے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام و محققین کہ نماز کے التحیات میں کلمہ شہادت کی ادائیگی میں شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا مسنون ہے یا نہیں؟ کیونکہ بعض حنفی علماء کرام نے اس کو مکروہ اور حرام تک لکھا ہے جن میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ کا نام بھی ہے۔ براہ کرام وضاحت فرمائیں۔

الجواب باسم الوھّاب
تمام علماء کرام احناف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ التحیات میں انگلی کا اشارہ کرنا شرعاً مسنون ہے جس کی صورت یہ ہے کہ التحیات میں دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھیں اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر پھر جب اشارہ کرنے کا وقت آئے تو دو انگلیاں (چھوٹی اور ساتھ والی) ہتھیلی کے ساتھ ملی رہیں اور بیچ کی انگلی و انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنا لیا جائے اور اشھد ان لا میں لا پر انگلی اٹھا کر اشارہ کے لیے قبلہ رخ رکھیں (آسمان کی طرف نہ کریں) اور الا اللّٰہ پر اشارہ ختم کریں، انگلی نیچے رکھ دیں (انگوٹھے کے دائرہ پر) آخر التحیات تک باقی رکھیں یہ افضل ہے۔ عبارات فقہ و احادیث ذیل میں ہیں:
(۱) و فی الطحطاوی علی المراقی: تکون اشارتہ الی جھۃ القبلۃ۔ (ص۲۲۹
(۲) قال ملا علی القاری فی رسالتہ تزیین العبارۃ: …… المعتمد عندنا انہ لا یعقد یمناہ الا عند الاشارۃ لاختلاف الفاظ الحدیث …… و الصحیح المختار عند جمھور اصحابنا ان یضع کفیہ علی فخذیہ ثم عند وصولہ الی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر و البنصر و یحلق الوسطٰی و الابھام و یشیر بالمسجۃ رافعا لھا عندالنفی واضعًا عند الاثبات ثم یستمر علی ذلک۔ (عن التعلیق الممجّد علی المؤطا لامام محمد، ص۱۰۸
(۳) و فی الشامیہ: عن اصحابنا جمیعًا انہ سنۃ فیحلق ابھام الیمنٰی و وسطاھا ملصقًا رَأسھا برأسھا و یشیر بالسبابۃ۔ (ج۲، ص۲۱۷، صفۃ الصلوٰۃ ، ط: امدادیہ ملتان)۔
(۴)و فی المؤطا لامام محمد: (عن ابن عمر) کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس فی الصلوٰۃ وضع کفّہٗ الیمنٰی علی فخذہ الیمنٰی و قبض اصابعہ کلھا و اشار باصبعہ التی تلی الابھام …… قال محمد و بصنیع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نأخذ وھو قول ابی حنیفۃ (ص۱۰۸،۱۰۹) یہی حدیث مسلم ج۱، ص۲۱۶ باب صفۃ الجلوس فی الصلوٰۃ میں ہے اور ابو داؤد شریف ج۱ ص۱۴۹ باب اشارۃ فی التشھد میں بھی ہے دیگر کتب احادیث میں باقاعدہ باب باندھ کر اشارہ والی احادیث کو ذکر کیا ہے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں: (۱)مسند احمد ج۱ ص۴۵۹ (۲)نسائی شریف ج۱ ص۱۷۳ (۳)ترمذی شریف ج۱ ص۳۹ (۴)مشکوٰۃ ص۸۵ (۵)ابن ماجہ شریف (۶)مصنف عبدالرزّاق (۷)سنن کبریٰ بیہقی (۸)مسند دارمی وغیرھا۔
التحیات میں اشھد ان لا پر اشارہ کرنا بے شمار احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ عمل باقاعدہ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے خود کیا اور آپ کی اتباع میں حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بھی جاری رکھا اور آج تک پوری امت کا اس پر عمل ہے۔
البتہ وہ حضرات جنہوں نے ’’اشارۃ فی التشھد‘‘ کا انکار کیا ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں جس کی نشاندہی بعد کے علماء کرام نے خوب کی ہے چند اکابر امت کی تحریر ملاحظہ ہو:
(۱)فتاویٰ محمودیہ میں ہے: تشہد میں انگلی کا اشارہ مسنون ہے امام ابوحنیفہ کے اصحاب کا کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ مشائخ ماوراء النھر میں مبسوط کتاب کی ایک عبارت کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو گیا اوروہ یہ سمجھے کہ اس میں دو روایتیں ہیں (حالانکہ ایسا نہیں) اسی بناء پر خلاصہ کیدانی، سراجیہ، بزازیہ …… وغیرہ میں ممنوع لکھا ہے (یعنی مغالطہ کی وجہ سے انکار کر بیٹھے)۔ (محمودیہ،ج۹، ص۳۴۷
(۲)علامہ عبدالحئی لکھنؤی رحمۃ اﷲ علیہ نے دلائل کے ساتھ منکرین کا رد کیا ہے، دیکھیے : مجموعۃ الفتاویٰ (ج۱، ص۱۹۳
(۳)صاحب دُرِّمختار نے بھی منکرین اشارہ کا رد کیا ہے اور فرمایا الصحیح انہ یشیر بمسبّحتہ صحیح یہی ہے کہ شھادت والی انگلی سے اشارہ کرنا چاہیے پھر فرمایا منکرین کی بات روایت و درایت (نقل و عقل) کے خلاف ہے۔ (۴)علامہ شامی رحمہ اﷲ نے بھی تردید فرمائی ہے۔ (الدر مع الرد، ج۲، ص۲۱۷
(۵)صاحب المراقی نے بھی رد کیا ہے، دیکھیے طحطاوی مع المراقی (ص۲۶۹
(۶)حضرت شیخ احمد سرہندی سے چونکہ مکتوبات میں اشارہ کرنے کا انکار ثابت تھا تو ان کے صاحبزادہ شیخ محمد صادق اور شیخ محمد سعید رحمۃ اﷲ علیہما نے وضاحت کی کہ اشارہ کرنا مسنون ہے۔ (مدلل نماز از شیخ الحدیث فیض احمد، ص۱۵۹) …………………… فقط واللّٰہ اعلم
                                                                                                                                کتبہٗ العبد محمد اعظم ہاشمی غفرلہٗ الغنی
                                                                                                                                غرہ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ
تصدیق
محقق العصر حضرت مولانا مفتی سید عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہم
۔(صدر دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا)۔
الجواب صحیح و المجیب نجیح
                تفصیل کے لیے حضرت ملا علی القاری الحنفی رحمہ اﷲ کا رسالہ ’’تزیین العبارہ فی تحسین الاشارہ‘‘ اور علامہ شامی رحمہ اﷲ کا رسالہ ’’رسائل ابن عابدین‘‘ جلد اوّل ص۱۱۹ میں ہے اس کا نام ’’رفع التردد فی عقد الاصابع عند التشھد‘‘ ہے، اسے دیکھیے۔ نیز حضرت علامہ عبدالحئی لکھنؤی رحمۃ اﷲ علیہ نے شرح الوقایہ کے مقدمہ، حاشیہ اور ’’السعایہ فی کشف ما فی شرح الوقایۃ‘‘ میں اس پر مفصل بحث فرمائی ہے، اسی طرح حضرت علامہ محمد یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’معارف السنن‘‘ میں اس کو بڑی بسط و تفصیل سے لکھا ہے اور منکرین کا رَدّ فرمایا ہے۔
                حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ نے اگرچہ اس کا انکار فرمایا ہے، لکن الحق ان الحق لیس معہ فی ھذہ المسئلہ ، خود ان کے فرزند ارجمند رحمہ اﷲ نے ان کے جواب میں مستقل رسالہ تحریر فرمایا ہے۔ حق یہی ہے کہ تشہد میں اشارہ بالسبابۃ مسنون ہے۔ والحق احق ان یتبع۔        فقط واللّٰہ اعلم
                                                                                                                                احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہٗ
                                                                                                                                خادم الافتاء بالجامعۃالحقانیہ ساہیوال سرگودھا
                                                                                                                                ۴؍۵؍۱۴۳۷ھ          ۱۳؍۲؍۲۰۱۶ء


No comments:

Post a Comment